ہمارا تعلیمی نظام کیوں سائنسدان پیدا نہیں کرسکتا؟

In ادب
January 03, 2021

سوال یہ ہے کہ آج طلباء میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے امتحانات میں 1100 میں سے 1000 سے زائد نمبر لے جاتے ہیں مگر پھر بھی اس قوم میں کوئی علامہ اقبال، محمد علی جناح جیسا مفکراور لیڈر کیوں پیدا نہیں ہو سکا؟ کیوں اس قوم میں بو علی سینا، ابو موسی الخوارزمی، عبدالمالک اصمعی اور جابر بن حیان جیسے سائنسدان پیدا نہیں ہو رہے؟

یہ تمام سوالات آج اس قوم ، اس قوم کے حکمرانوں ، اس قوم کے مقتدر اداروں اور اساتذہ سے چیخ چیخ کر سوالات کررہے ہیں کہ آخر کیوں ؟ تم دوسری تمام دنیا کی نسبت تنزلی کا شکار ہو۔ آخر کیوں اس قوم کے نوجوانوں میں علامہ اقبال جیسی فکر، محمد علی جناح جیسی لیڈر شپ اور جابر بن حیان جیسی تجرباتی سوچ پیدا نہیں ہورہی۔ان تمام سوالات کا ایک ہی جواب ہے کہ ہم آج تک اسلام کے سنہری دور والا تعلیمی نظام اپنانے کی بجائے ”لارڈ میکالے” کا کلیریکل سٹاف پیدا کرنے والا نظام چلا رہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے آج تک یہ کوشش ہی نہیں کی کہ کس طرح اس سسٹم سے نجات حاصل کی جائے۔جس قوم نے او لیول، اے لیول اور پتہ نہیں کس طرح کا نظام ہم پر مسلط کررکھا ہے ان کا نظام اپنا یہ ہے کہ وہ بچے کو میٹرک میں تھیوری کم اور پریکٹیکل زیادہ کرواتے ہیں اور ہم ہیں کہ وہی تھیوری کو رٹے لگانے کے ماہر ہیں ۔ حال یہ ہے کہ ہمارے میٹرک پاس بچے کو تھیوری تو طوطے کی طرح یاد ہے مگر اسے ایک سادہ سی خوردبین استعمال کرنے کا طریقہ تک نہیں آتا۔

ہمارے بچوں کو فورس، انرشیا، ایکسلریشن اور مومینٹم کا تو پتہ ہے مگر ان کا روز مرہ زندگی میں مثالی اطلاق نہیں آتا ہمیں نیوٹن کے قوانین تو یاد ہیں مگر ان قوانین کو روزانہ ہم کہاں کہاں فالو کرتے ہیں اس کا پتہ نہیں اور نہ ہی اساتذہ یہ بتانے کی زحمت کرتے ہیں کیونکہ ان کو بھی پتہ ہے یہاں کاغذ پر جو سٹوڈینٹ جتنا اچھا چھاپ دے گا اتنا ہی ذہین کہلائے گا ورنہ نکما۔اگر آپ نفسیات کے اصول و ضوابط سے واقعی آگاہ ہیں تو یہ جاننے میں آپ کو قطعی مشکل نہیں ہوگی کہ جس طرح کا امتحانی طریقہ وضع کیا جاتا ہے اسی طرح اساتذہ کی نفسیاتی تربیت بھی ہوتی ہے اور وہ مجبور ہوتے ہیں چاہتے ہوئے بھی اس رٹا سسٹم سے نہیں نکل سکتے۔ اور اب بات آتی ہے طالب علم کی تو واضح بات ہے طلباء کو پریکٹیکل کے کم اور تھیوری کے زیادہ مارکس دیے جاتے ہیں تو وہ بھی اس رٹا سسٹم پر ہی عمل کرتے ہیں۔

زندگی کے 18 سے 20 سال لگانے کے بعد ایک طالب علم جب کوئی کام عملی طور پر کرنے کے قابل نہیں ہوتا تو اسے مختلف کمپنیز بھی ہائر کرنے سے گریزاں ہوتی ہیں جس سے مایوسی کی فضاء جنم لیتی ہے اور یہی نقظہ آغاز ہوتا ہے تعلیمی گراوٹ کا۔ ہمیں آزاد ہوئے ستر سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے مگر مجال ہے کسی حکمران نے اس تعلیمی نظام کو بدلنے کی سنجیدہ کوشش کی ہو بس اگر کوشش کی ہے تو بھاری بھرکم کتابیں لادنے کی کوشش کی ہے۔لکھنے کو تو بہت کچھ ہے مگر اتنے پر ہی اکتفا کرونگا کیونکہ یہ ایسا موضوع ہے جس پر جتنا لکھا جائے اتنا کم ہے