*قرآن، کتابِ انقلاب*چودہ صدیاں پہلے کا منظر، خطہءِ عرب گمراہی کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے اور عالَمِ انسانیت لامتناہی اندھیروں میں بھٹک رہی ہے اور روشنی کی ننھی سی کرن کے لیے تڑپ رہا ہے۔پھر تاریخِ زمانہ نے منظر بدلتے دیکھا۔ اسی سر زمینِ وحشت پر انسانیت نوازی کا آفتاب طلوع ہوتا ہے۔پہلے پہل یہ آفتابِ ہدایت حرا کی خلوتوں میں جگمگاتا رہا اور پھر حکمِ ربانی پاکر فاران کی وادیوں سے چمکتا دمکتا ہوا ضوفگن ہوتا ہے اور زمانہ میں نغمے گونجنے لگتے ہیں:
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہءِ کیمیا ساتھ لایا
نسخہءِ کیمیا کیا تھا؟ حکمتوں بھری قرآن و فرقان، تیس سیپاروں پر مشتمل کتابِ انقلاب۔ معرفتِ حضور صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم سے زمانے کو عطا ہونے والا ایک بہت بڑا انعام۔ قرآن جو کتابِ انقلاب ہے، حضور صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے اور جو اس بحرِ حکمت میں غواصی کرے اسے بھی معجزہ نما بنا دیتا ہے۔قرآن کتابِ انقلاب ہے اور حضور نبی کریم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی ذات داعیِٔ انقلاب ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو جامع و اکمل نمونۂِ عمل ہے۔چودہ سو سال پہلے ایک طرف کتابِ انقلاب تھی تو دوسری طرف داعیِٔ انقلاب صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کا کردار۔ جس نے بھی کتابِ انقلاب کو تھام کر دامانِ رسول صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم سے وابستگی اختیار کی وہ ظلمت کے اندھیروں سے روشنی کے جزیروں کی طرف محوِ سفر ہوا۔یوں ظلمتیں چھٹنے لگیں اور انوارِ توحید ابھرنے لگا۔ حق واضح ہوتا گیا۔ باطل سرنگوں ہوتا چلا گیا۔ رہزنوں کو راہبری ملی۔ وحشت و بربریت کے علمبردار امن کے معمار بن گئے۔
غرض یہ کہ قرآن کریم عالمِ انسانیت کے لیے جامع ترین کتابِ انقلاب ہے کہ اس نے مسلم بھائی چارے کی فضا میں غیر مسلموں کے لیے بھی حقوق مقرر کر دیئے۔ہمارا شاندار ماضی اسی کتابِ انقلاب کی خوش بختی سے عبارت ہے اور ہمارا عہدِ حال و مستقبل بھی اسی کتابِ انقلاب کی برکات حاصل کرنے کے لیے سسک رہا ہے۔قرآن صحیفہ ہے، وظیفہ ہے، دعا ہے-اللّٰه کی آواز ہے، تخلیقِ خدا ہے-آج بھی ہم کتابِ انقلاب کی سنہری روشنی میں اندھیروں سے نبردآزما ہوسکتے ہیں۔ اللّٰه پاک ہمیں اسی کتابِ انقلاب کی ہدایت دائمی سے نجات کا رستہ دکھائے۔