باپ کی بھول
سنومیرے بچے! میں تمہیں اس وقت مخاطب ہوں جبکہ تم سو رہے ہو. تم نے اپنا ایک ننھا سا ہاتھ اپنے ایک رخسار کے نیچے رکھا ہوا ہے اور تمہارے گھو نگھریالے بال تمہاری نم آلود پیشانی پر پڑے ہیں.میرے پیارے بچے! یہ ہیں وہ باتیں جو میں سوچ رہا تھا. میں تم پر خفا ہوا. تم اسکول جانے کے لئے لباس پہن رہے تھے کہ میں نے تمہیں ڈانٹا کہ تم نے اپنے چہرے کو اچھی طرح صاف نہیں کیا. تو لئے کو یونہی ایک بار منہ پر پھیر کر رکھ دیا ہے. اپنے جوتوں پر اچھی طرح صاف نہیں کیا. میں نے تمہیں ڈانٹ پلائی. تم سے اپنی چند چیزیں فرش پر گر گئیں تو میں نے تمہیں برا بھلا کہا.
میں نے کہا تم چائے وغیرہ گرادیتے ہو. روٹی کو چبائے بغیر نگل لیتے ہو. تم میز کے اوپر اپنی کہنیاں رکھ لیتے ہو. تم ڈبل روٹی کے اوپر مکھن کی بہت موٹی تہہ چرھاتے ہو. تم کھیلنے کے لئے چلے اور میں اپنی گاڑی کے لیئے بھاگا تو تم میری طرف مڑے. اپنا ایک ہوتھ اتھا کر لہرایا اور کہا. خدا حافظ اباجان! میں نے کڑھ کر جواب میں کہا. اپنے کندھے پیچھے کی طرف رکھو.میں سڑک پر چلا آرہا تھا. تمہاری جرابیں کئی جکہ سے پھٹی ہوئی تھیں. میں تمہیں تمہارے ساتھی لڑکوں کے سامنے اپنے ہاتھ آگے آگے لے کر چلا. جس سے تمہاری تحقیر ہوئی.شاید تمہیں یاد ہو. اس کے بعد شام کو میں اپنے کتب خانے میں پڑ ھنے میں مصروف تھا کہ تم جھجکتے ہوئے میرے پاس آئے اور تمہاری نظریں صاف کہہ رہی تھی کہ تمہارے جزبات کو سخت ٹھیس پہنچی ہے. تم میر نے میری نگاہوں سے اس مداخلت پر ناراضگی ٹپکتی دیکھی تو دروازے پر ہی رک گئے.میں نے جھنجلا کر کہا. اب کیا چاہتے ہو؟تم نے اپنی زبان سے کچھ نہ کہا اور جزبات سے مجبور ہو کر پورے زور سے سیدھے میری طرف بھاگتے ہوئے آئے اور آکر اپنے ننھے ننھے بازو میری گردن میں حمائل کر دئیے اور مجھے بوسہ دیا. اس وقت تم نے مجھے اس جوش مخبت سے بھینچا جو قدرت نے تمہارے دل میں پیدا کیا ہے اور جسے میری بے تو جہی بھی کم نہ کر سکی. اس کے بعد تم چلے گئے اور سیڑھیوں پر زور زور سے پاؤں پٹختے ہوئے اور چڑھ گئے.
میرے بچے! تمہارے جانے کے بعد اخبار میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور مجھ پر ایک عجیب احساس ندامت طاری ہو گیا. میں عادت سے مجبور ہو کر کیا کرتا رہا ہوں؟ تم ایک ننھے سے بچے ہو. اسکی وجہ یہ تھی کہ میں تمہاری عمر کے مقابلے میں تم سے بہت زیادہ توقعات رکھتا تھا. میں تمہیں تمہاری عمر کے بجائے اپنی عمر کے گز سے ناپ رہا تھا.تمہاری سیرت میں بہت سی اچھی، عمدہ اور بہترین خوبیاں تھیں. آج کی رات مجھے اور کسی چیز کی پروا نہیں. میرے بچے. میں اندھیر میں تمہارے بستر کے پاس آیا ہوں. احساس شرمندگی سے مغلوب ہو کر تم پر جھکا ہوا ہوں -یہ ایک ادبی سا راضی نامہ ہے. مھے معلوم تھا کہ میں یہ باتیں جاگتے میں تم سے کہتا تو تم ان کو سمجھ نہ پاتے.لیکن میرے بچے. اب میں تمہیں چارپائی پر تھکے ہارے ماندے دیکھتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ تم تو ابھی بالکل نو عمر ہوں.ابھی کل تک تو تم اپنی ماں کی آغوش میں تھے اور تمہارا سر اس کے کاندھوں پر جکھا ہوتا تھا. ناجائز حد تک زیادہ توقع.