خلافت عثمانیہ کا باقاعدہ قیام عثمان غازی نے جولائی1299 میں کیا اور یہ عظیم سلطنت یکم کو1922 تک قائم رہی۔اس 623 سالہ دور حکومت میں خلافت عثمانیہ نے بے شمار علاقے فتح کر کے اپنی سرحدیں تین براعظموں تک پھلا دیں اور خلافت عثمانیہ کے36 عثمانی سلاطین نے فرمانروائی کی۔ آخری عثمانی سلطان عبدالمجید ثانی تھے جنہیں رسمی طور پر خلیفہ مقرر کیا گیا تھا۔سلطنت عثمانیہ کے آخری خلیفہ و سلطان عبدالمجید ثانی کو 3 مارچ 1924 کو معزول کر دیا گیا اور سلطنت عثمانیہ ختم ہو گئی۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد عثمانی خاندان کو رات کی تاریکی میں جلاوطن کر کے مختلف ممالک میں بھیج دیا گیا۔جہاں ایک مشکل زندگی ان کی منتظر تھی۔عثمانی خاندان معاشی بدحالی کا شکار ہو گیا اور شہزادے معمولی ملازمتیں کر کے گزر بسر کرنے لگے۔خلافت تو نہ بچ سکی مگر عثمانی خاندان نے انتہائی مشکل حالات میں بھی اپنے آباؤ اجداد کی روش کو قائم رکھا اور ہر دور ميں اپنا ایک خلیفہ مقرر کرتے رہے۔اس وقت دندار علی عثمان سلطنتِ عثمانیہ کے آخری شہزادے ہیں اور اب بھی حیات ہیں۔اکثر یہ سوال ہمارے ذہن میں آتا ہے کہ کیا سلطنتِ عثمانیہ کا کوئی فرد یا ارطغرل غازی یا عثمان غازی کی نسل اور ان کا خاندان اب بھی موجود ہے۔عثمانی خاندان آج کل کہاں ہے۔
استنبول میں رہنے والے خلیفہ دندار علی عثمان خلافتِ عثمانیہ کے آخری وارث آج بھی موجود ہیں اور ان کا خاندان آج بھی استنبول میں موجود ہے ۔دندار علی عثمان30 دسمبر1930 کو دمشق میں پیدا ہوئے ۔اس حوالے سے ترکی کے مرمرہ یونیورسٹی کے پروفیسر اکرم نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ دندار علی عثمان کے والد شہزادہ محمد عبدالکریم کافی عرصے تک سلطنتِ عثمانیہ کی بحالی کیلئے جدوجہد کرتے رہے اور بالآخر1935 میں ان کو قتل کر دیا گیا ۔
جس وقت شہزادہ دندار علی عثمان کی عمر تقریباً 6 برس تھی۔ اسی دوران شہزادہ دندار علی عثمان کی والدہ آپ کو لے کر دمشق روانہ ہو گئیں ۔ اکرم لکھتے ہیں کہ دندار علی عثمان نے انتہائی پرسکون اور خاموش زندگی بسر کی اور ان کو اور موسیقی پسند نہیں تاہم کئی سال اپنے ملک سے دور رہنے کے باوجود انتہائی خوبصورت انداز میں ترکی زبان بولتے ہیں ۔اس حوالے سے اکرم نے لکھا کہ دندر علی عثمان کے والد کی وفات كے بعد ان کے حلقۂ احباب میں ترکی زبان بولنے والا کوئ بھی نہیں تھا،یہاں تک کہ ان کی والدہ بھی ترکی زبان نہیں جانتی تھیں ۔تاہم دندار علی عثمان نے وہاں ترکی زبان کی تعلیم یونیورسٹی سے حاصل کی ۔اس کے علاوہ دندار علی عثمان نے فارمیسی کی تعلیم بھی حاصل کر رکھی ہے ۔دندار علی عثمان عظیم عاشق رسول سلطان عبدالمجید ثانی کے پوتے اور خلیفہ محمد عبدالکریم کے بیٹے ہیں ۔
1974 میں عثمانی خاندان کو دوبارہ ترکی جانے کی اجازت دی گئی تھی تاہم دندار علی عثمان نے واپس آنے سے انکار کر دیا ۔2011 میں شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو یہ خبریں سامنے آئیں کہ دندار علی عثمان شام میں پھنسے ہوئے ہیں ۔جس کے بعد انہیں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے حکم پر وہاں سے نکال کر لبنان پہنچایا گیا اور اب وہ استنبول میں مقیم ہیں ۔1922 میں سلطنتِ عثمانیہ ختم ہونے کے بعد معاہدہ لوزان لکھا گیا جو عیسائیوں اور ترکوں کے درمیان100 سالہ پابندی کا معاہدہ تھا ۔سلطنت عثمانیہ اور سلطان کو ترکی سے جلا وطن کر دیا گیا ۔تب سے لے کر آج تک ارطغرل غازی اور عثمان غازی کے قائی قبیلے کے تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ افراد دنیا کے تقریباً سات ممالک میں مزدوروں کی زندگی گزار رہے ہیں ۔مگر ہر سال ان کا ایک جرگہ بلایا جاتا ہے اور وہ اپنے آباؤ اجداد کے اصولوں کے مطابق اپنے خاندان کے قوانین مرتب کرتے ہیں اور اب بھی ان سب کے سربراہ ایک خلیفہ اور سلطان ہیں جن کا نام خلیفہ دندار علی عثمان ہے ۔جو اس سے پہلے دمشق میں رہائش پذیر تھے ۔شجرۂ نسب کے مطابق دندار علی عثمانی ارطغرل غازی کے 45 ویں پوتے ہیں ۔
کچھ ذرائع سے انکشافات کیے جا رہے ہیں کہ 2023 میں معاہدہ لوزان کی رو سے ترکی کی کمان سلطان دندار علی عثمان یا پھر رجب طیب اردوگان کے حوالے کی جائے گی ۔ رجب طیب اردگان کی یہ خواہش رہی ہے کہ وہ دندار علی عثمان کو ترکی کا سلطان اور خلیفہ دیکھیں مگر دوسری جانب بدقسمتی سے خلیفہ دندار علی عثمان کی عمر 90 برس کے قریب ہو چکی ہے اور مزید یہ کہ آپ کا کوئ بیٹا بھی نہیں تاہم آپ کی ایک بیٹی ہے جن کا نام شہزادی نعمت خاتون ہے ۔ ممکنہ طور پر 2023 میں معاہدہ لوزان کے خاتمے کے بعد ترکی کی بجائے اس ملک کو سلطنتِ عثمانیہ بلایا جائے گا اور تمام اسلامی قوانین نافذ کیے جائیں گے ۔ جس کے بعد ترکی ایک سیکولر ریاست سے اسلامی ریاست اور سلطنت میں تبدیل ہو جائے گا ۔