ذہنی دباؤ کا نام ڈپریشن ہے اور یہ بیماری آج کل بہت ہی زیادہ ہوگئی ہے خاص کر نوجوانوں میں اور ہر تیسرا شخص اس کا شکار ہے۔ جب کوئی چیز ہماری توقعات کے مطابق نا ہو تو یہ ڈپریشن کی وجہ بن جاتی ہے۔ روزمرہ زندگی کی پریشانیاں، تھکاوٹ، اور توقعات اس کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ زندگی آسان نہیں ہے اس آسان بنانا پڑتا ہے اور اس میں وقت بھی لگ سکتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں اس چیز کا نتیجہ حاصل ہو جائے جس کی ہم کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اس جلد بازی کے سبب اگر کوئی چیز ہمیں وقت سے پہلے نہیں ملتی تو وہ ڈپریشن کی وجہ بن جاتی ہے۔ زندگی میں مستقل مزاجی سے کام لینا اس کے اثر کو کم کر دیتا ہے۔ مستقل مزاجی میں وقت ضرور لگ سکتا ہے مگر یہ کامیابی کی ضمانت دیتی ہے۔ دفتر میں کام کرنے والے افراد مسلسل کام کر کر کے اکتا جاتے ہیں۔ ان کو ذہنی سکون کی ضرورت ہوتی ہے مگر گھر اور دفتر کی پریشانیاں ان کے اندر ڈپریشن کو جنم دیتی ہیں۔
اس مرض کی اور وجوہات میں شامل گھریلوں جھگڑے، بے روزگاری، ذہنی تناؤ وغیرہ شامل ہیں۔ ہم ان مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے خود کو اذیت میں مبتلا کر دیتے ہیں اور اس طرح ہمارے اندر خوف و پریشانی پیدا ہوتی ہے۔ بجائے اس کے کہ مستقبل کے بارے میں پریشان ہویا جائے، اگر حال میں رہا جائے تو اس سے کافی حد تک نجات مل سکتی ہے۔ مگر طالب علم اپنی پڑھائی، بے روزگار اپنی نوکری، اور نوکری والے اپنے کام کی وجہ سے پریشان ہیں۔ پہلے کی نسبت ڈپریشن کا شکار مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے معاشرے کا نظام بھی متاثر ہوا ہے۔ جبکہ اگلے زمانے میں سادہ زندگی تو تھی مگر پریشانیاں نہیں تھی۔ جیسے ہیں وقت نے کروٹ بدلی، زمانہ بھی تبدیل ہوا۔ نظام زندگی اور رہن سہن میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ امراض میں بھی اضافہ ہوا اور ڈپریشن کی بیماری نے بھی جنم لیا۔ دین اسلام سے دوری بھی آج کل پریشانی کا سبب ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص نماز و دیگر فرائض کا اہتمام کرتا ہے تو وہ ان امراض سے دور رہتا ہے جو جان لیوا ہوں۔
موجودہ جدید اور سائنسی دور میں اس مرض کا علاج موجود ہے۔ مگر سب سے بہترین حل نماز میں دل لگانا ہے۔ اس کے علاوہ ابن عربی کی بتائی ہوئی تسبیح بھی ہے جس سے زندگی کی پریشانیوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹرز کے پاس بھی علاج ممکن ہے۔ بہتر یہی ہے کا خود اس کا حل ڈھونڈا جائیں اور بجائے پریشان ہونے کے اللہ پاک سے فریاد کی جائے۔ اللہ پاک آپ کی دعا ضرور سنے گا۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ وہ لوگ خوش و خرم زندگی بسر کرتے ہیں جو حال میں رہتے ہیں اور مستقبل کی فکر نہیں کرتے۔ جب رہنا ہی حال میں ہے تو پریشانی کس بات کی۔ زندگی میں جس مسئلہ کا حل موجود ہے تو اس مسئلہ کے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ اس کا حل موجود ہے۔ اور اگر کسی مسئلہ کا حل موجود نہیں ہے تو بھی پریشانی کس بات کی کیونکہ اس کا تو حل ہے ہی نہیں۔ اس لیے بجائے پریشانی کے اور مستقبل کی الجھنوں کے، حال میں جیا جائے تو آپ کی پریشانیاں کم ہو سکتی ہیں۔
وہی لوگ اس جہاں فانی میں کامیاب ٹھہرتے ہیں جو مستقل مزاجی کے ساتھ ساتھ حال میں زندگی گزارتے ہیں ۔ گویا ان کو یہ فن راس آچکا ہوتا ہے۔ جب کہ زیادہ پریشان ان لوگوں کو دیکھا گیا ہے جو منتظم ہوں یا انتظامیہ میں شامل ہوں۔ ان کو بے پناہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر جب وہ ان مسائل کو قابو کرنے کا فن جان چکے ہوتے ہیں تو ان کے لیے آسانی رہتی ہے۔ اللہ پاک سے اپنے لیے اور دوسروں کے لیے دعا کرتے رہا کریں کیونکہ پریشان ہونے سے آپ کا اپنا نقصان ہونا ہے کسی اور کا نہیں۔ وہی ذات ہے جو ستر ماؤں کے برابر آپ سے پیار کرتا ہے۔ جب آپ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں، اللہ پاک کی ذات آپ کے لیے آسانیاں پیدا فرماتا ہے۔ خوش رہیں اور زندگی کو خوشی سے بسر کریں۔