Skip to content

کرونا ویکسین کے استعمال پر مسلم دنیا میں اختلاف کیوں؟

چین کے شہر ووہان سے پھیلے گئے وائرس سے اگرچہ اِس وقت پوری دنیا میں تباہی پھیلی ہوئی ہے اور اِسی وجہ سے تقریبا تمام ممالک نے اجتماعات وغیرہ پر پابندی لگائی ہیں لیکن وہی دوسری طرف بیشتر ممالک کے دواساز کمپنیوں نے اِسکے ویکسین بنا دیے ہیں اور باقاعدہ طور پر ویکسینیشن کا آغاز بھی ہوچکا ہے لیکن، مسلم دنیا میں اس وقت کرونا ویکسین کے استعمال سے متعلق ایک تجسس کی فضا قائم ہوچکی ہے۔
اختلاف کی بنیادی وجہ۔
اختلاف اور تجسس دونوں کی بنیادی وجہ اس ویکسین میں شامل اجزاء ہیں کہ آیا یہ حلال ہے یا حرام اس بارے میں کافی حد تک تمام فرقوں سے تعلق رکھنے والے علماء کا مؤقف واضح ہی ہے کہ مسلمان اِس ویکسین کا استعمال تبھی کرسکتے ہے جب یہ حلال ہو لیکن کچھ علماء بالخصوص انڈیا میں ایسے علماء ہیں جنکا کہنا ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ ویکسین حلال ہے یا حرام کیونکہ دینِ اسلام میں زندگی کو انتہائی ےترجیح دی گئی ہے۔یہ فتویٰ بھارتی ریاست آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے علماء کرام نے جاری کیا ہے۔
دیگر علماء کا رد عمل۔
متحدہ عرب امارات کے اسلامک کو نسل کی جانب سے جاری کئے گئے وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بات سچ ہے کہ کرونا ویکسین میں حرام اجزاء موجود ہے لیکن چونکہ اس وقت اِس بیماری کا کوئی دوسرا علاج موجود نہیں ہے اسلئے مسلمان اسکو استعمال کرسکتے ہیں۔
پاکستانیوں کا ردعمل۔
پاکستان میں بھی گزشتہ ایک عرصے سے کرونا ویکسین سے متعلق مختلف قسم کی خبریں گردش کررہی ہیں جیسا کہ یہ ایک دجالی حربہ ہے جو کہ یہود ایک منّظم سازش کے تحت انجام دے رہے ہیں اور اِس کے استعمال سے ایک چِپ آپکے بدن میں داخل کردی جائیگی جسکے ذریعے سے آپکے اعصاب کو کنٹرول کیا جائیگا۔
انڈونیشی حکومت کا اعلان۔
انڈونیشیاء میں حکومت کی جانب سے جب چینی حکام سے ویکسین خریدنے کیلئے رابطہ کیا گیا تو عوام میں ایک بے چینی کی سی لہر دوڑ گئی اور اسی وجہ سے انڈونیشن سفارت کاروں کے ساتھ علماء کا ایک وفد بھی چین کے دورے پر پہنچے تھے جنکا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ وہ اس بات کو واضح کرسکے کہ یہ ویکسین حلال ہے یا حرام۔
ملائیشیاء اور کرونا ویکسین۔
ملائیشین حکومت نے پچھلے سال امریکی ویکسین بنانے والی کمپنی پفائزر سے ویکسین کی خریداری کیلئے رابطہ کیا جو کہ ۲۰ فیصد آبادی کو فراہم کی جائیگی ساتھ ہی حکومت نے چین سے بھی ویکسین کیلئے رجوع کیا جو کہ مزید ۶۱ فیصد ملائیشین آبادی کو فراہم کی جائیگی لیکن اِس پر ملک کے دینی طبقے کیطرف سے سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ اس ویکسین کا استعمال صرف اْسی صورت ممکن ہے جب یہ حلال اجزاء پر مشتمل ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *