Skip to content
  • by

بنا پنکھ پرندے

اُڑتے تو بھلا کیسے بنا پنکھ پرندے
رہتے تو ہیں اُکتائے بنا پنکھ پرندے

ہم نے تو فقط دانہ دیا، پانی پلایا
آنگن میں گرے آ کے بنا پنکھ پرندے

پر ان کے نکل آئے تو لہجہ تھا کوئی اور
کیا آج ہوئے، کیا تھے بنا پنکھ پرندے

تھا ہم کو نہیں ایسا اشارہ ہی وگرنہ
اڑ کر ہی پہنچ جاتے بنا پنکھ پرندے

جب تک تھے اڑانوں میں بھلے لگتے تھے لیکن
سنبھلے نہ کبھی ہم سے بنا پنکھ پرندے

ہم صید ہیں، صیّاد ستمگر ہے بلا کا
اترے سے وہی چہرے، بنا پنکھ پرندے

وہ دور بھی تھا راج کیا کرتے تھے حسرت
چبھتے ہیں ابھی لہجے (بنا پنکھ پرندے)

رشید حسرت

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *