Skip to content

نظام بدلو

نِظام بَد لو

ہرکہ آمد عمارت نوساخت جب بھی کوئی نئی حکومت آئی اپنی نئی حکمت عملی کے ساتھ اپنا تعارف کرایا تمام محکموں سے کالی بھیڑوں کو نکالنے اور کرپشن کے خلاف اعلان جنگ کا ایجنڈہ لے کر اپنا تعارف کرایا جوں جوں حکومت کی عمر بڑھتی گئی جیسے انسان کی عمر بڑھنے سے اس کا حافظہ کمزور پڑ جاتاہے، اسی طرح حکومت بھی اپنے قول و قرار کو پس پشت ڈال کر اپنی نئی پالیسوں میں مصروف ہوجاتی ہے جن اصلاحات کا ارادہ کیا تھا وعدہ کیاتھا اس کو بھول جاتی ہے کیونکہ ہر محکمہ میں کرپشن اتُم پائی جاتی ہے اس کرپشن کے خاتمے کیلئے دل گردے کاکام ہوتاہے ادنی سے اعلیٰ تک تمام بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی بجائے ڈبکیاں لگارہے ہیں بڑوں کے چھوٹے آلہ کار ہوتے ہیں انہیں کے ذریعے کرپشن ہوتی ہے اسی لئے حکومت پرانے نظام میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی.

پولیس ملک میں ایک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اس کے بغیر امن اور شانتی ناممکن ہے،کیونکہ یہ جرائم پیشہ لوگوں کر پکڑ کر عدالتوں میں لاکر سزائیں دلواتی ہے اور ملک میں امن و امان قائم رکھتی ہے اور لوگوں کی جان و مال اور عزت ونفس کی حفاظت کرنا اس کے فرائض میں شامل ہے یہ محافظ وطن ہے لیکن اس کے باوجود عوام اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے کیونکہ یہ پولیس خو د ہی اپنی نظروں سے گرگئی ہے کوئی اچھا افسر بھی ہوگا پھر بھی وہ نظروں سے ایسا گرا ہواہوگا، کہ ہر شخص اس کو کرپٹ کہتاہے کوئی یہ کہے کہ تھانیدار بہت اچھا اور شریف النفس انسان ہے تو کوئی بھی اس پر یقین نہیں کرتا کیونکہ ایک مچھلی گندی تما م تالاب گندا اس لئے لوگوں کے ذہن تسلیم کرنے کو تیا ر ہی نہیں ہوتے کہ پولیس والا کوئی اچھا ہوگا،ان کی وردی کو دیکھ کرلوگ نفرت کرتے ہیں اور فوج کی وردی کولوگ محبت کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں، پولیس کی وردی سے لوگوں کے دلوں میں خوف اور دہشت چھائی ہوئی ہے، کرپشن، ظلم اور نا انصافیاں اگر یہ پولیس والے نہ کریں اور اپنے کردار کی اصلاح کریں تو تمام لوگ ان سے محبت کرنے لگیں گے لیکن یہ نہیں چاہتے کہ لوگ ان سے محبت کریں بلکہ وہ چاہتے ہیں ان سے صر ف پیسہ محبت کرے کیونکہ پیسہ ہی ا ن کا ایمان ہے کسی د ہشتگرد کی سپورٹ کرنا، اور چند ٹکوں کے عوض کسی قاتل کو چھوڑ دینا کیونکہ تفتشی آفیسر کے پاس اختیارات ہی اتنے ہوتے ہیں کہ اس کی تفتیش کو کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا اس کے قلم کی نوک سے کئی ناحق سزا پاجاتے ہیں اور گناہگار آزاد ہوجاتے ہیں تفتیشی اپنے آپ کو بچانے اور مجرموں کو چھوڑنے کے لئے پنچائیتو ں کا سہارا لیتا ہے اور جھوٹے موٹھے گواہوں کی روشنی میں قاتلوں کو چھوڑ دیتا ہے تھانے ایک وحشت کا منظر پیش کرتے ہیں.

شرفاء تھانوں پر جانے سے کتراتے ہیں،اسی لئے وہ چٹی دلالوں کا سہارا ڈھونڈھتے ہیں کیونکہ ان کے بغیر کوئی پرچہ درج ہی نہیں ہوتا، جس کی لڑکی اغو ا ہوتی ہے رشوت بھی اس کو دینی پڑتی ہے وگرنہ تفتیش کا دائرہ مدعی کے گھر کی دہلیز سے باہر نہیں جاتا، یہاں پر کسی پولیس والے کو اگر تھانے سے لائن حاضر کردیا جاتاہے تووہ بے آب ماہی کی طرح تڑپتا پھڑکتا رہتا ہے کہ اسے کھڈے لائن لگا دیا گیاہے،حالانکہ وہاں بھی اسے تنخواہ ملتی ہے لیکن اس کی روح اور اس کا ضمیر غیر مطمئین اور بے چین رہتے ہیں کیونکہ یہاں صر ف اس کو رزق حلال ملتاہے اس کا مقصود تو حصولِ رزق حرام ہے وہ سفارشوں اور کرنسی کا سہار ا لے کر کسی اچھے پرکشش تھانے پر تعینات ہونے کی کوشش کرتا ہے .

تھانے پر تھانیدار کا وقار ہی کچھ اور ہوتا ہے وہ علاقے کا گورنر کہلاتاہے ہر قانون اس کے ارد گرد گھومتا ہے اس کی نوک ِ قلم میں بڑی طاقت ہوتی ہے بڑے بڑے جرائم پیشہ لوگوں سے بھتہ وصول کرنا ایم این اے اور ایم پی اے کا پروٹوکول۔ سر! سر! کے القاب سے پیوسطہ سلوٹوں کی بھرمار قحبہ خانوں کے دلالوں سے منتھلیاں،جوا ء شراب خانوں سے حصہ لینا اب عوام خود ہی چور، ڈاکووؤں کو پکڑتے ہی تشدد کا نشانہ بنا کر پھر پولیس کے حوالے کرتی ہے کیونکہ پولیس کے پاس جاتے ہی ان جرائم پیشہ لوگوں کو اچھی پروٹوکول مل جاتی ہے کیونکہ اسی وقت سفارشی فون یا پیسہ چل جاتا ہے اب عوام اپنے فیصلے خود کرے گی جرائم پیشہ لوگوں کو موقع پر پکڑ کر مار دے گی، کیونکہ پولیس کے حوالے کرنے سے تفتیشی افسر کی ناقص تفتیش سے مجرم عدالتوں سے جلد رہا ہوجاتے ہیں جہاں انصاف نہیں ملتا وہاں لاقانونیت ہوجاتی ہے،عوام اپنے فیصلے خود ہی کرنے لگتی ہے یہاں تو قانون صرف غریب کی دیوڑی سے نکل ہی نہیں پاتا،پولیس کی ناانصافی کے خوف سے مجرموں کو مدعی پارٹیاں عدالتوں میں ہی قتل کردیتی ہیں،کیونکہ وہ یہ سمجھتی ہے ان کے مجرم بری ہو جائیں گے کئی بے گناہوں کو ڈکیتی میں ملوث کرکے پار کردیتے ہیں، کئی پولیس کے تشدد سے مرگئے اور پولیس پر مقدمات بھی درج ہوگئے لیکن آج تک کسی پولیس والے کو لٹکایا نہ گیا پو لیس دو دھاری تلوار ہے قاتل سے پیسے مدعی سے پیسے اسی لئے ہمارے نظام میں کچھ خرابیاں موجود ہیں اگر جرائم کی روک تھام اور اپنے ملک کو امن کا گہوارہ بنا نا ہے تو پہلے پولیس کا قبلہ درست کرنا ہوگا.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *