بے وفا
زرد موسم تھا اج ۔ان کے دل پر بھی خزاں کی زردی سی چھائی تھی ۔اجڑے چمن میں بھی جاتی بہار کے آثار نمایاں تھے ۔۔چاۓ کا آخری گھونٹ بھر کے کپ سائیڈ پر رکھا اور اندر جانے کے لیے قدم بڑھا ے ۔۔بی بی اج کیا پکانا ھے ۔۔کچھ بھی بنا لو بوا جی ۔جو آپ کا دل کرے ۔اچھا بی بی جان ۔آپ چل کر آرام کیجے ۔فجر سے اٹھی ہوئی ہیں ۔۔۔جی بوا ۔ے شہر بانو بیگم تھیں ۔بیرسٹر سلطان کی وائف جو بہت نامور وکیل تھے ۔
بڑے بڑے کیس لڑے اور جیتے ۔ہمیشہ ہر میدان میں کامیاب تھے ۔شہر بانو ان کی بیگم بہت ہی خوبصورت اور ملنسار خاتون تھیں ۔ان کے دو بیٹے تھے ۔شاہ میر ۔اور المیر ۔دنوں کو اعلی تعلم۔ کے لیے باہر بھیجا تھا دونوں بچے ہی ان کی امیدوں پر پورا اترے تھے اور اب تو ان کی تعلم مکمل ہونے والی تھی ۔اور بیرسٹر صاحب اور شہر بانو دونوں ہی بہت خوش تھے ۔کے ان کے بچے واپس انے والے ہیں ۔۔لیکن وقت کا کس کو پتا ھے اچھا بھلے سوۓتھے بیرسٹر صاحب۔صبح شہر بانو فجر کے وقت نماز کے لے اٹھانے گیں تو بے حس حرکت دیکھ بری حالت ہو گئی بوا کو بھیج کر پڑوس سے قاضی صاحب کے ڈاکٹر بیٹے کو بلوایا ۔اس نے آ کر موت کی تصدیق کی ۔برسوں کا ساتھ تھا ہمدم دیرینہ بچھڑا تو لگا صحرا میں ننگے پاؤں کھڑی ہوں ۔عزیز رشتے دار جمع ہونے لگے بیٹوں کو بھی فون کر دیا بڑے نے تو تھوڑا حوصلہ دکھایا چھوٹا المیر تو چیخ چیخ کر رونے لگا آ نے کا انتظام کرنے کا کہا اور یہ بھی کے لیٹ ہو جایں تو انتظار ناکریں ۔تو ان کے انے کا انتظام نا ہو سکا اور تدفین ہو گئی ۔۔شہر بانو انتظار کی گھڑیاں گن گن کر دن گزارنے لگیں ۔اج بھی سرد اور اداس دن تھا ۔۔۔بیرسٹر صاحب کے مٹھو کی آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی بہت پیارا تھا وکیل صاحب کویہ طوطا خوب ناز برداری کرتے تھے اس کی ۔
اب یہ پرندے بھی کچھ اداس اداس سے تھے اپنے مالک کے بنا ۔بوا بوا ۔جی بی بی ۔ایک کام کرو اس مٹھو کو آزاد کر دو کب سے قید ھے یہ ۔ایسے رہائی دے دو اس قفس سے اج ۔جی بی بی ۔بوا نے لاک ہٹا کر پنجرے کا دروازہ کھولا مٹھو تو موقع ملنا تھا آہستہ آہستہ پنجرے سے نکلا اور یہ جا وہ جا ۔۔۔شہر بانو دور تک اڑ تا دیکھتی رہیں مٹھو کو ۔کمرے میں فون کی گھنٹی بج رہی تھی ۔۔ہیلو کون ۔بوا نے فون اٹھایا ۔بی بی شہمیر بابا کا فون ھے ۔۔مامتا تڑپ کر اٹھی ہیلو ہیلو بیٹا کیسے ہو کب ا رہے ہو ۔اسلام علیکم امی کیسی ہیں آپ ۔ بیٹا میں ٹھیک ہوں لیکن تم لوگوں کے بنا بہت اکیلی ہوں کب آو گے تم دونوں بھائی ۔جی امی ہم نے آپ کو اسی لیے فون کیا ھے مجھے اور المیر کو یہاں بہت اچھی جاب مل گئی ھے ۔آپ کی د عا سے ۔اب تو بہت سال تک آنا ممکن ہی نہیں ھے ۔ویسے بھی کیا رکھا ھے یہاں ۔۔بیروزگاری اور پلوشن کے سوا ۔اور ہاں امی میں نے یہاں ایک پاکستانی فیملی میں شادی کر لی ھے بہت پیاری ھے آپ کی بہو ۔المیر کی بھی کمٹمنٹ ھے کسی سے وہ آپ کو خود ہی بتا دے گا ۔اچھا امی فون رکھتا ہوں میں کوشش کر کے آپ کو بھی بہت جلد یہاں بلا لوں گا ۔اوکے امی اللّه حافظ
شہر بانو دم توڑتی امید کے ساتھ تخت پر بیٹھ گئیں ۔آس کی ڈوری ٹوٹی تو لگا سب کچھ ختم ہو گیا ۔۔۔۔لگتا ھے آندھی انے والی ھے ۔۔۔ہاں شائد ایسا ہی لگتا ھے تم دروازے کھڑکیاں بند کر دو ۔جی بوآ ایک ایک کھڑکی بند کرنے لگی ۔۔۔۔ٹیں ٹیں ۔بی بی جی چوری دو بی بی جی چوری دو ۔۔مٹھو بیٹے کو بھوک لگی ۔بوآ کی بچی ۔کھانا دے ۔ہیں یہ کیا مٹھو پنجرے کے اوپر بیٹھا لہک لہک کر بول رہا تھا گھر میں اس کی آواز سے زندگی جاگ اٹھی ۔ہاں ہاں ابھی دیتی ہوں بوا جلدی سے دو مٹھو کو چوری ۔جلدی ۔سے جلدی یہ بھوکا ھے ۔۔۔شہر بانو بہتے آنسو وں کے ساتھ بولیں ۔کیسے آنسو تھے یہ غم کے یا شائد خوشی کے ۔بس بہ رہے تھے ۔
فہمیدہ ناز غوری کراچی ۔۔۔