غار والوں کی کہانی

In افسانے
August 06, 2021
غار والوں کی کہانی

ہزاروں سال پہلے کا ذکر ہے کہ روم میں دقیانوس نامی بادشاہ حکومت کیا کرتا تھا وہ بہت ہی ظالم اور درندہ صفت انسان تھا- الله پر یقین نہیں رکھتا تھا اور بتوں کی پوجا کرتا تھا، اس کی پوری قوم الله کی عبادت سے ناواقف تھی بلکہ سب کے سب بتوں کی پوجا کرتے تھے- اسی بت پرست قوم میں کچھ سجھدار لوگ بھی رہتے تھے- وہ آپس میں اکثر یہ تذکرہ کرتے تھے کہ یہ مٹی کے بت ہیں جنہیں قوم والے خدا سمجھتے ہیں- یہ پھتر کی مورتیاں تو اپنے ناک پر بیٹھی ہوئی مکھی بھی نہیں ہٹا سکتیں-بھلا انسان کو کیا فائدہ اور نقصان دیں گی، کم عقل لوگ ہیں، اتنی سی بات نہیں سمجتھے پھر بادشاہ بھی عجیب آدمی ہیں لوگوں کو سختی کے ساتھ ان کی پوجا کرنے پر مجبور کرتا ہے- جو لوگ بتوں کی پوجا سے انکار کرتے تھے بادشاہ انہیں آگ میں ڈال دیتا تھا، ان کے ناخن کھینچ لیتا تھا-

اس قوم میں ہر سال عید کا میلا لگتا جس میں تمام لوگ شرکت کے لئے جاتے تھے، یہاں کشتیاں ہوتی تھیں، دوڑ کے مقابلے ہوتے اور طرح طرح کے کھیل تماشے ہوتے تھے، سارے انعام تقسیم ہونے کے بعد بتوں کی پوجا ہوتی اور مٹھائی تقسیم کی جاتی تھی، ان تمام فضول تماشوں سے تنگ آ کر چند لوگ ایک درخت کے ساۓ میں آ کر بیٹھ گۓ،ان میں سے کوئی کسی کو نہیں جانتا تھا، آخر ایک نے دوسرے سے تعارف کرایا اور پوچھا بھائی تم سب یہاں کیوں بیٹھ گۓ، پہلے نے کہا مجھے بت پرستی سے نفرت ہے، دوسرا بولا ہاتھوں کی بنائی ہوئی مورتیوں کی عبادت کرنا کہاں کی عقلمندی ہے، تیسرے نے کہا، پوری قوم جاہل ہو چکی ہے، کوئی بھی خدا کو نہیں جانتا- پھر سب نے مل کر عہد کیا کہ وہ ہرگز بتوں کی پوجا نہیں کریں گے بلکہ صرف اس خدا کی پرستش کریں گے جو سب کا مالک ہے- جس نے سب کچھ بنایا جس نے سب کو پیدا کیا اور وہ ہی موت دیتا ہے- ان چند ساتھیوں نے مل کر مکان خرید لیا اور وہاں رہنے لگے اور اپنے گھر میں خدا کی عبادت شروع کر دی-

یہ خبر ان کی قوم میں پھیل گئی کہ چند نوجوان بتوں سے باغی ہو کر الله کی عبادت کرتے ہیں، چند چغل خوروں نے یہ خبر بادشاہ کو بھی پہنچا دی- بادشاہ نے یہ سنا تو غصے سے لال پیلا ہو گیا اور کہنے لگا میں اس ملک میں بتوں کے خلاف بولنے کی کسی کو اجازت نہیں دے سکتا، اس نے حکم دیا کہ نوجوانوں کو گرفتار کر لیا جاۓ اور اس کے سامنے پیش کیا جاۓ، جب یہ نوجوان گرفتار ہو کر محل میں گۓ تو کیا دیکھا کہ بہت ہی خوبصورت محل ہے، اونچے اونچے کمرے، خوبصورت بغیچے، جگہ جگہ قیمتی قالین بچھے ہیں، دیواروں پر خوبصورت اور ریشمی پردے لٹک رہے ہیں، درجنوں نوجوان ہاتھوں میں تلواریں لئے محل کی حفاظت کر رہے تھے لیکن الله پر ایمان رکھنے والے یہ نوجوان کسی چیز سے متاثر نہیں ہوۓ کیوں کے کہ وہ صرف الله کو بڑا طاقت والا مانتے تھے

وہ سب بے خوف بادشاہ کے سامنے گۓ بادشاہ نے ان سے کہا، میں نے سنا ہے کہ تم لوگ قوم کے خداؤں کو برا بھلا کہتے ہواور ایک انسان کو مانتے ہو جسے کبھی آنکھ سے دیکھا بھی نہیں تم جوان ہو اسی لیے اپنے مذہب سے بھٹک گیے ہو، دیکھو تم ان باتوں سے باز آ جاؤ میں تمہیں اچھے اچھے عہدے اور انعام دوں گا- بادشاہ نے جب بات ختم کی تو ایک قیدی نوجوان نے کہا بادشاہ سلامت ہم الله کے سوا کسی دوسرے کی عبادت ہر گز نہیں کر سکتے- ہمارا خدا بڑی طاقت والا ہے، پھر آپ کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ آپ بھی جھوٹے خداؤں کو چوڑ کر سچے خدا کی بندگی کریں- بادشاہ زور سے چلایا اپنی بکواس بند کرو میں تمہارے باپ دادا کی عزت کرتا ہوں ورنہ تمہیں ابھی اور اسی وقت قتل کر دیتا، تمہیں سوچنے کا موقع دیتا ہوں اگر تم اپنے ارادوں سے باز نہ آۓ تو گردن اڑا دوں گا اور اگر بتوں کو مان لیا تو دربار میں جگا دوں گا- سب نے مل کر مشورہ کیا کہ ہم شہر سے دور کسی غار میں چل کر رہتے ہیں.

وہاں اللہ کی عبادت کرے گے اور جب تک اس ظالم بادشاہ کی حکومت ختم نہیں ہو جاتی ہم اسی جگہ رہیں گیں- رات کو جب سب لوگ سو گۓ اور ہر طرف اندھرا چھا گیا تو یہ نوجوان خاموشی کے ساتھ اٹھے اپنا سامان باندھ کر کندھے پر رکھا اور شہر سے پہاڑ کی طرف چل دیۓ- انہوں نے ایک کتا پال رکھا تھا وہ کتا بھی ان کے ساتھ چل دیا، دوسرے دن دوپہر کو یہ ایک پہاڑ کے پاس پہنچے وہاں ایک غار تھا ان نوجوانوں نے اپنے ہاتھوں سے اس غار کو صاف کیا اور غار میں بیٹھ کر سستانے لگے- وہ بہت تھک چکے تھے کمر سیدھی کرنے کے لئے لیٹ گۓ، ان کا کتا غار کے منہ پر بیٹھ کر پہرا دینے لگا- انہیں نیند آنے لگی ایک ایک کر کے سب سوگۓ، کتا یوں ہی پہرا دیتا رہا-

الله نے انہیں ایسی نیند سلایا کہ وہ غار کے اندر تین سو سال تک سوتے رہے- تین سو سال بعد کے سب جاگے، ایک دوسرے سے پوچھنے لگے بڑی گہری نیند تھی، ہم کتنی دیر تک سوتے رہے، ایک نے کہا بہت بھوک لگی ہے، انہوں نے کہا ہم سے ایک آدمی جا کر بازار سے کھانا لے آۓ ان میں سے ایک نوجوان کچھ پیسے لے کر کھانے کا سامان لینے شہرکی طرف جانے لگا سب نے اسے اچھی طرح سمجھا دیا کہ کسی کو ہمارے بارے میں نہیں بتانا ورنہ ظالم بادشاہ گرفتار کر کے قتل کر دے گا- جب وو شہر گیا اس نے دیکھا کہ شہر کا نقشہ ہی بدل گیا ہے سب سڑکیں گلیاں تبدیل ہو گئی یہاں تک کے ظالم زمانے کا سکہ بھی بدل گیا، جب وہ کھانے کی ایک دکان پر گیا ظالم بادشاہ کے زمانے کا سکہ پیش کیا تو دکاندار حیران رہ گیا اور کہنے لگا یہ تو بادشاہ دقیانوس کے زمانے کا سکہ ہے تمہیں کہاں سے ملا، چند اور لوگ بھی جمع ہو گۓ اور کہنے لگے اس نوجوان کو قدیم خزانہ مل گیا ہے جس میں سے یہ سکہ نکال لایا ہے، نوجوان حیران پریشان لوگوں کو سمجھانے لگا کہ میرے پاس کوئی خزانہ نہیں ہے-

یہ میرا اپنا سکہ ہے لیکن لوگوں نے اسے گرفتار کر کے بادشاہ کے سامنے پیش کر دیا- اس نئے بادشاہ کا نام بیدوسس تھا، یہ بہت نیک دل اور ایماندار بادشاہ تھا، جب اسے یہ سکہ دکھایا گیا تو اس نے وزیر سے مشورہ کیا، وزیر نے بتایا کہ تعین سو سال پہلے جب دقیانوس بادشاہ حکمران تھا یہ سکہ جب چلتا تھا بادشاہ نے نوجوان سے نام پوچھا تو نوجوان نے سب کچھ سچ سچ بتا دیا کہ وہ چند ساتھی اپنا ایمان بچانے کی غرز سے فرار ہو گۓ تھے-بادشاہ ساری کہانی سن کے حیران رہ گیا کیوں کہ الله نے ان نوجوانوں کو تین صدیوں تک سلاۓ رکھا، اس عرصے می کئی بادشاہ تبدیل ہو گۓ تھے- اس نے بادشاہ سے اجازت لی اور اپنے ساتھیوں سے ملنے گیا، ساتھیوں سے مل کر اس نے سارا حیرت انگیز واقعہ سنایا اور بتایا کہ بادشا بھی مسلمان ہے، تھوڑی دیر بعد بادشاہ خود اپنے حفاظتی عملے کے ساتھ غار تک پہنچ گیا- سب ساتھیوں نے بادشاہ کا استقبال کیا- کچھ دیر بادشاہ ساتھ رہ کر رخصت ہو گیا- یہ سب ساتھی غار کے اندر چلے گۓ اور الله کے حکم سے سب کے سب انتقال کر گۓ-
مہوش کنول مشی

1 comments on “غار والوں کی کہانی
Leave a Reply