بھوت کا لفظ اپنے عام ترین مفہوم میں کسی انسان کے اپنی موت کے بعد اپنے جسمانی وجود سے باہر ظاہر ہونے پر ادا کیا جاتا ہے۔ اسی قسم کے ملتے جلتے تصورات کے لیے چھلاوا اور آسیب کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ مذہب اسلام میں نہ صرف یہ کہ بھوت بلکہ چڑیل، آسیب، چھلاوا اور دیو وغیرہ سمیت کسی بھی مافوق فطرت وجود کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا . اسلامی تصور کے مطابق جنات فرشتوں اور انسانوں کی طرح اللہ کی پیدا کردہ ایک مخلوق ہیں جو انسان سے قبل وجود میں لائی گئی؛ یعنی جیسے فرشتوں کو اسلامی نظریے کے مطابق مافوق فطرت کے زمرے میں نہیں رکھا جاسکتا اسی طرح جن بھی مافوق فطرت کے تصور میں شامل نہیں ہوتے۔ بھوت تناسخ کے تصور سے وجود پاتے ہیں اور اسلام میں تناسخ نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ حدیث سے ۔
اگر آپ بھوت پریت پر یقین رکھتے ہیں تو آپ کی دلچسپی کے لئے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں۔ یہ واقعہ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی کتاب ” اپنا گریبان چاک ” میں بیان کیا ہے۔باکستان بننے سے پیشتر گرمیوں میں بعض اوقات شملہ جانے کا موقع مل جاتا ۔۔۔۔۔کوٹھیوں میں سے ایک جس کا نام ہائیڈ ویل تھا “بھاری” تھی ۔وہان کسی زمانے میں ایک انگریز پادری کی رہائش تھی جو قتل کردیاگیا تھا ۔ بعض اوقات اتوار کی رات اس کی روح وہاں آیا کرتی اور گھر کے دروازے کھٹکھنے لگتے ۔ اگر کوئی ایک دروازہ کھول دیا جاتا تو سکوت طاری ہو جاتا ۔ایک رات میں اور عزیز نچلے بیڈروم میں سوئے تھے اور ان دنوں ہم صرف دو ہی گھر میں مقیم تھے ۔اچانک برآمدے میں لکڑی کے فرش پر کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ چند لمحوں بعد ہمارے دروازے پر کھٹکا ہوا جیسے کوئی چھڑی سے اسے کھٹکھٹا رہا ہو۔ ہم دونوں جاگ اٹھے۔ دروازے کے پیچھے تیز روشنی تھی۔ گویا کسی نے پہاڑی سڑک پر موٹر کار کھڑی کر کے بتیاں جلا دی ہوں حالانکہ وہاں کوئی موٹر کار نہیں آ سکتی تھی ۔
اس روشنی میں دروازے کے اندھے شیشوں سے ہمیں ایک شبیہ نظر آئی جو سیاہ گاؤن اور ہیٹ میں ملبوس تھی ۔عزیز کا پلنگ دروازے کے قریب تھا اور وہ خوف سے کانپ رہاتھا۔ اس نے لڑ کھڑاتے لہجے میں انگریزی بولتے ہوئے کہا ” یس، یور ہائنس! کم ان کم ان پلیز۔ آئی اوپن دی ڈور فار یو سر ! کم ان !!” اتنے میں اپنی رضائی سے نکل کر وہ دروازے کی طرف لپکا اور اسے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کھول دیا۔ پل بھر میں روشنی غائب ہو گئی اور ہر طرف خاموشی چھا گئی.
(از: سید مظفر)
nice