ضمیر کا زندہ ہوناانسان کے زندہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے
ہماری سانسیں تو چل رہی ہیں
مگر نہ جانے کب ہم اپنے ضمیر کی موت پہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
پڑھ چکے ہیں
ضمیر تو ہمارے مر چکے ہیں ساتھ ہی ہم اپنی خوداری عزت نفس نام کی شہ اپنے ہاتھوں سے دفن کر چکے ہیں اُس پار کشمیر کی بیٹیوں کو تو انصاف نہ دلا سکے ان کا درد تو ہم محسوس نہ کر سکے پر خدا رہ اس طرف کشمیر کی بیٹیوں کے محافظ تو بن جاؤ ریاست کی بیٹیاں کافروں میں محفوظ نہیں ہیں تو مومنوں اور مسلمانوں میں بھی محفوظ نہیں ہیں کچھ دن پہلے مظفرآباد کی دو معصوم بچیاں سات سالہ مصباح اور بارہ سالہ ثوبیہ کا ریپ اور سولہ ثناء افتخار کا قتل بھی ہمیں نظر نہیں آتا ریاست کے جان و مال عزت آبرو کا تحفظ ریاست کے حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن جب بات عورت کی عزت، حقوق اور انصاف کی آتی ہے تو سب کو کیوں سانپ سونگ جاتا ہے
حوا کی بیٹی انصاف کی منتظر ہیں
وہ زندہ ہے تو ثوبیہ اور مصباح کی صورت میں مرنے کے بعد ثناء افتخار کی شکل میں انصاف کی منتظر
عورت جب اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی ہے عام آدمی سے لے کر حکمران اور مذہبی ٹھیکیداروں تک سب تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن افسوس اس ظلم پہ کسی مذہبی ٹھیکیدار نے احتجاج کیا نہ کسی ضمیر میں کسک اٹھی اور نہ کوئی انسانی حقوق کا علمبردار میدان میں نکلا
ہم اس مردہ معاشرے میں رہتے ہیں
جہاں پولیس ظالم کا ساتھ دیتی ہے
جہاں قلم بکتا ہے
جہاں انصاف خریدہ جاتا ہے جہاں مادہ پرستی کے سامنے انسانیت ہار جاتی ہے
جہاں حکمران خود کو خدا سمجھتے ہیں
جہاں چند پیسوں پہ ایمان بکتے ہیں
ہم بحیثیت فرد نہیں بحیثیت معاشرہ مردہ ضمیروں کی اجتماعی قبر ہیں
ہمارا دل درد انسانیت سے خالی ہے ہم اس مردہ ضمیر معاشرہ کا حصہ ہیں جہاں زندہ انسان نہیں مردہ انسانوں کی روح انصاف کی منتظر ہے
ثناء کی موت بھی ہمارے مردہ ضمیروں کو نہ زندہ کر گی اس کی لاش چیخ چیخ کر ثناء پہ ہونے والے ظلم بیان کر رہی تھی مگر ہم زندہ ہوتے تو ہمیں چیخیں سنائی دیتی
ثناء کی موت پہ خاموشی ہماری مفلوج سوچ کی عکاسی کرتی ہے ثناء بیٹی تو نہیں ہماری بہن تو نہیں تھی ہماری برادری کی تو نہیں تھی ہمارے ضلع کی تو نہیں تھی
مفلوج سوچ اور ذہنی مریضوں ایک بات یاد رکھنا بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں
ظلم کو اگر روکا نہ جائے تو ظلم کی ہوا بہت تیزی سے چلتی ہے اور مجرم کا خاندان بہت تیزی سے پھلتا ہے آج ثناء کل آپ کی بیٹی یا بہن بھی ہو سکتی ہے
مجرمانہ خاموشی ظلم اور جرم دونوں کو ہوا دے رہی ہے اور یہ ہوا ایک دن پورا معاشرہ لے ڈوبے گی
اس سے پہلے کہ آگ پورے معاشرے کو لے ڈوبے ظلم کے خلاف متحد ہو کر کھڑے ہو جاؤ
جب معاشرہ ظلم کے خلاف کھڑا ہوتا ہے تو ظالم کمزور ہو جاتا ہے
انصاف اور انسانیت کی اس لڑائی میں ان کی آواز بنیں جن کو آپ کی آواز کی ضرورت ہے
انسانیت کی کوئی ذات کوئی برادری قیبلہ فرقہ اور مذہب نہیں ہوتا
از قلم
ثوبیہ راجپوت