عذاب

In افسانے
January 03, 2021

عذاب
روبینہ نازلی
(سرگودھا کے قریب بسے ایک گاؤں کا عجیب واقعہ)

الٰہی بخش نے حسبِ معمول بھینسوں کو باڑے سے نکالا اور چرانے کے لئے انہیں ہانکتا گاؤں میں آبادی سے باہر لے آیا۔ یہاں جانوروں کی چراگاہ تھی، چراگاہ کے ساتھ ہی قبرستان تھا۔ بھینسیں چرنے کیلئے چراگاہ میں پھیل گئیں اور الٰہی بخش درانتی سنبھال کر چاراکاٹنے لگا۔ وہ چاراکاٹ کر ساتھ بھی لے جاتا تھا تاکہ بار بار جانوروں کو چرانے نہ لانا پڑے۔ وہ چارا کاٹنے میں مصروف تھا کہ اچانک اس کے کانوں سے انتہائی تیز آواز ٹکرائی، اس نے چونک کر ادھر اُدھر دیکھا۔

وہ تیز آواز قبرستان سے آرہی تھی۔الہٰی بخش نے ادھر دیکھا وہاں تین سفید کبوتر تھے! وہ تینوں کبوترایک قبر سے نمودار ہوئے تھے۔ اب وہ تینوں کبوتر ہوا میں بلند ہو رہے تھے اور یہ تیز آواز ان ہی کی تھی ان کی آواز ایسی تھی جیسے تین جیٹ جہاز اُڑ رہے ہوں۔ الٰہی بخش بڑی حیرت سے یہ عجیب منظر دیکھ رہا تھا۔ اچانک اس کے ذہن میں جھماکا ہوا۔!کہیں یہ وہی کبوتر تو نہیں! وہ زہن پر زور دیتا ہوا بڑ بڑایا۔ چار ماہ پہلے کا وہ واقعہ اس کے ذہن میں نمودارہونے لگا۔!

رات کے وقت دروازے پر بڑی ذور دار دستک ہوئی تھی۔ کرم دین بڑ بڑاتا ہوا دروازے کی طرف بڑھا اور کُنڈی کھول دی۔ دروازے میں ایک فقیر کھڑا تھا۔ کرم دین نے اسے دیکھ کر بُرا سا مُنہ بنا یا۔ ”کیا بات ہے؟ اس وقت بھی تمہیں چین نہیں۔“ ”میں کچھ مانگنے نہیں آیا“۔ فقرنرم آواز میں بولا۔ ”پھر کیا بات ہے؟“ کرم دین بے ذاری سے بولا۔ اسے رات کے وقت فقیر کا یوں دروازہ بجانا اچھا نہیں لگا تھا اور یہ فقیر بھی گاؤں کا نہیں لگ رہا تھا۔ اس لیے کرم دین چوکس ہو گیا۔ وہ کوئی چور اُچکا بھی ہو سکتا تھا۔ آج کل چور اُچکے ایسے ہی بھیس بدل بدل کر وارداتیں کرنے لگے ہیں۔وہ۔۔۔میں۔۔ رات یہاں گزارنا چاہتا ہوں۔ صبح سویرے ہی نکل جاؤں گا۔ میرا یہاں کوئی ٹھکانہ نہیں، پر دیسی ہوں۔ فقیر نے اپنا مدعا بیان کیا۔ کرم دین نے اُلجھن آمیز نظروں سے اس فقیر کو دیکھا۔ وہ نظروں ہی نظروں میں اسے تولنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے کیا جواب دے۔ کون ہے کرم دین؟ کرم دین کی بیوی ذرینہ نے پوچھا۔ وہ بھی آکر اس کے پیچھے کھڑی ہو گئی تھی۔ ”یہ فقیر ہمارے گھر میں رات گزارنا چاہتا ہے۔ کرم دین نے ذرینہ کی طرف مڑتے ہوئے کہا۔

”کرم دینا“ تیرا دماغ تو نہیں چل گیا۔ گھر میں عورتیں بچیاں سبھی ہیں۔ ایسے فراڈیے تو روز آتے ہیں۔ گھر لوٹ کے لے جاتے ہیں اور تو اور لڑکیاں بھی بھگا لے جاتے ہیں۔ چل دروازہ بند کر۔ ذرینہ نے اسے دھکیلا۔ کرم دین کو بھی ذرینہ کی بات میں وزن نظر آیا تھا اور وہ خود بھی کسی اجنبی کو گھر میں رکھنا نہیں چاہتا تھا۔ جیسے ہی کرم دین نے دروازہ بھیڑنا چاہا۔ فقیر نے اپنا پاؤں دروازے کی چوکھٹ میں پھنسا دیا۔ ”ایک چار پائی ہی کی تو جگہ مانگتا ہوں، وہ بھی صرف ایک رات کے لئے، منہ اندھیرے ہی چل دوں گا۔ فقیر نے سادگی سے کہا۔”چل ہٹ پرے“ آجا تے ہیں کہیں سے، اُچکے کہیں کے، جا اپنا کام کر، کسی اور گھر کا رستہ دیکھ۔ یہ عورتوں والا گھر ہے، ہم کسی غیر مرد کو گھر میں نہیں رکھ سکتے۔“ زرینہ نے اسے ڈانتے ہوئے دروازہ بھیڑنا چاہا۔ ”اچھا یہ بات ہے۔“ فقیر نے معنی خیز لہجے میں اچھا کہا تو کرم دین اور ذرینہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اس فقیر کے لہجے میں اب کوئی خاص بات تھی۔ اس فقیر کی آنکھیں غصے سے انگاروں کی طرح سرخ ہو گئیں تھی۔میں نے صرف رات گذارنے کے لئے ہی تو تم سے جگہ مانگی تھی۔ تم نے جگہ نہیں دی، اب تین کبوتر تمہیں سمجھیں گے۔ اتنا کہہ کر وہ فقیر دروازے سے ہٹ گیا۔

وہ فقیر نہ جانے کتنے دروازوں سے نامراد لوٹا تھا کہ صبح ہونے تک پورے گاؤں میں وہ فقیر اور اس کی عجیب و غریب دھمکی موضوع بحث بن گئی تھی۔ کچھ عرصہ تو یہ واقعہ موضوعِ بحث رہا۔ پھر رفتہ رفتہ لوگ اس واقعے کو بھولنے لگے۔ آج چار ماہ بعد قبرستان سے نکل کر اُڑتے کبوتروں پر نظر پڑتے ہی الٰہی بخش کے ذہن میں وہ واقعہ پھرتازہ ہو گیاتھا۔الٰہی بخش کے ہاتھوں سے درانتی اور چارا گر گیا۔ اس کی نظریں اڑتے کبوتروں پر جمی ہوئی تھیں۔ ان کبوتروں کے اُڑنے کی آواز ایسی تھی جیسے تین جیٹ طیارے بیک وقت اُڑ رہے ہوں یہ بہت غیر معمولی اور حیرت انگیز منظر تھا جس نے الٰہی بخش کو فوری طور پر اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا۔ قبرستان سے نکل کر اب کبوتر گاؤں کے گرد اڑ رہے تھے۔ ایسے ہی اُڑتے اُڑتے ان کبوتروں نے گاؤں کے گرد تین چکر لگائے اور پھر قبرستان کا رُخ کیا اور اسی قبر پر اُترے جہاں سے اڑے تھے پھر اسی جگہ وہ غائب ہو گئے جس قبرسے وہ نمودار ہوئے تھے۔ الٰہی بخش ساکت و سامت حیرت میں ڈوبا اس قبر کودیکھ رہا تھا۔ اچانک اسی قبر سے ایک گردو غبار کا گول چکر نمودار ہوا۔ یہ گول بگولا، ابھرا تیزی سے گھوما اورآگ کا سا سرخ گولا بن گیا اور تیزی سے گاؤں کی طرف بڑھا۔ کبوتروں ہی کی طرح وہ طوفانی بگولا گاؤں کے گرد چکرانے لگا اوردیکھتے ہی دیکھتے اس بگولے نے پورے گاؤں کو تہہ وبالا کر کے رکھ دیا۔

کینو کے سیزن کا اختتام ہورہا تھا۔ بس میں کینو لوڈ ہو چکا تھا۔ زمان خان نے گاڑی چیک کی اور روانگی کے لئے تیار ہو گیا۔ وہ بھلوال میں یونین فروٹ فیکٹری میں کچھ عرصہ سے ڈرائیور کی حیثیت سے ملازمت کر رہا تھا۔ اس فیکٹری میں کینو پالش ہوتا تھا۔دوپہر کے ساڑھے چار بجے تھے جب کینو مزدے پہ لوڈ ہوا۔ ساڑھے چاربجے وہ بھیرہ سے بھلوال فیکٹری کے لئے روانہ ہوا۔پانچ بجے زمان خان چک مسراں سے گذر رہا تھا۔”چک مسراں“ بھلوال اوربھیرہ کے درمیان واقع ہے۔ چک مسراں بڑا قدیمی قصبہ ہے۔ یہاں پندرہ سوکے قریب گھر ہیں اور آبادی دس ہزار کے لگ بھگ۔ ٹھیک پانچ بجے ان کی گاڑی چک مسراں سے محض دو فرلانگ کے فاصلے سے گذر رہی تھی۔ ”یہ کیا ہے“؟ خدا کی پناہ، گاڑی روکو! زمان خان کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے فرید خان نے انتہائی تحیر کے عالم میں آبادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ زمان خان کی نظر چک مسراں کی طرف اٹھی اور اس کے پیر خود بخود بریک پر مضبوطی سے جم گئے۔ ”اپنی طرف کا شیشہ چڑھا دو، جلدی کرو۔ فرید خان نے خوفزدہ آواز میں زمان خان کو ہدایت کی جو حیرانی سے اسی طرف دیکھا رہا تھا۔ زمان خان نے چونک کر اس کی ہدایت پر جلدی سے اپنی طرف کے شیشے چڑھادیئے۔ فرید خان پہلے ہی یہ کام کر چکا تھا۔خدا کی پناہ یہ کیا ہے؟ زمان خان پھٹی پھٹی آنکھوں سے شیشے کے پار دیکھا رہا تھا۔ طوفان، اللہ کا عذاب۔ معافی مانگو معافی فرید خان خوف کی حالت میں اپنے دونوں ہاتھ دُعا کے انداز میں پھیلا تے ہوئے منہ پر رکھ کر سجدے کی کیفیت میں ڈیش بورڈ پر جھکتا چلا گیا۔ ان دونوں کے چہرے سفید ہو رہے تھے۔

فرید خان زور زور سے گڑ گڑا کر خدا سے معافی مانگ رہا تھا۔ زمان خان سکتے کے عالم میں شیشے کے پار نظریں جمائے ہوئے تھا سرخ رنگ کا ایک بڑ ابگولا قصبے کے گرد بڑی تیزی سے چکر ارہا تھا۔ اس بگولے نے قصبے کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ زمان خان یہ منظر پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اس کے بالکل سامنے اس سرخ طوفان میں چیزیں خس و خاشاک کی طرح اُڑتی پھر رہی تھیں۔ منوں ٹنوں وزنی چیزیں اس کے سامنے ہوا کے اس بگولے میں چکرا رہی تھیں ٹین والی بڑی بڑی چھتیں ہوا میں اُڑ رہی تھیں حتیٰ کہ زمان خان نے اس بگولے میں اُونٹ بھی ہوا میں اُڑتا دیکھا منوں ٹنوں وزنی ٹریکٹر ٹرالی ہوا میں اُڑ رہی تھی۔ یہ منظر تو بہت ہولناک تھا اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ سرخ بگولا تیزی سے حرکت کرتا ہوا ہر چیز کو کسی مشین کی طرح پیس رہا تھا۔ یہ سب کچھ ان سے محض دو فر لانگ کے فاصلے پر ہو رہا تھا۔ زمان خان کو اب اپنی موت یقینی نظر آرہی تھی۔ اسے یقین ہو چکا تھا کہ انتہائی تیزی سے حرکت کرتا بگولا اب بس چند سکنڈز میں ان تک پہنچنے ہی والا ہے۔ اس نے بھی فرید خان کی طرح آنکھیں بند کرلیں اور گڑ گڑاتا ہوا ڈیشن بورڈ پر سجدہ ریز ہوگیا۔

1 comments on “عذاب
    علی احمد

    بہت زبردست کہانی ہے ..اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

Leave a Reply