ہیپاٹائیٹس “جگر کی سوزش” کا نام ہے۔ یہ وائرسز، ڈرگز کے مضر اثرات اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ وائرسز میں عموما ہیپاٹائیٹس وائرس اے، بی، سی، ڈی اور ای ہیپاٹائیٹس کرتے ہیں۔ ڈرگز میں اینٹی بائیوٹکس، درد کی دوائیوں اور ٹی بی کی دوائیوں کے علاوہ دیگر دوائیاں ہیپاٹائیٹس کر سکتی ہیں۔ مزید یہ کہ کچھ بیماریاں جنہیں ہم “آٹوایمیون ڈیزیز (Autoimmune Diseases)” کہتے ہیں، وہ بھی ہیپاٹائیٹس کر سکتی ہیں۔ ایسی بیماریوں میں جسم کے اندر پیدا ہونے والے کیمیکلز جسم کے خلاف ہی کام کرنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر جسم کے کسی بھی حصے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
ہیپاٹائیٹس “بی” اور “سی” آلودہ نیڈلز، سرنجز، سرجیکل آلات، نیل کلپرز، ریزز، ٹوتھ برش اور نیڈل سٹک انجریز سے ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہو سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ ماں سے بچے کے اندر، اور میاں سے بیوی یا بیوی سے میاں میں ہم بستری کے دوران منتقل ہو سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ کان چھیدوانے اور جسم پہ نقش نگار (Tattoos) بنانے والے آلودہ آلات سے بھی یہ وائرسز ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو سکتے ہیں۔
صوبہ پنجاب کے اندر 2.4 فیصد لوگ ہیپاٹائیٹس “بی” اور 6.7 فیصد لوگ ہیپاٹائیٹس “سی” کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صوبہ پنجاب کے اندر پچاس لاکھ مریض ہیپاٹائیٹس “بی” کے ہیں اور ایک کروڑ مریض ہیپاٹائیٹس “سی” کے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں 2016 میں 23720 لوگ ہیپاٹائیٹس کی وجہ سے لقمہ اجل بنے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے پاکستان میں ہر روز 64 مسافروں سے بھری بس کسی دریا میں ڈوب جائے۔ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعدار کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب گورنمنٹ نے 2009 میں “پنجاب ہیپاٹائیٹس کنٹرول پروگرام” شروع کیا تاکہ لوگوں کو ہیپاٹائیٹس “بی” اور “سی” کی فری تشخیص اور علاج مہیا کیا جا سکے۔ اسکے علاوہ انفیکشن کنٹرول، انجیکشن سیفٹی اور ہسپتال کے آلودہ فضلے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے جیسے عوامل کی مدد سے ہیپاٹائیٹس کے پھیلاو کو روکا جا سکے۔
لیہ میں بشمول ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے تمام تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں “ہیپاٹائیٹس کلینک” فعال ہیں۔ جہاں پہ ہیپاٹائیٹس “بی” اور “سی” کی سکریننگ سے لیکر تشخیص اور علاج فری کیا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ ہیپاٹائیٹس “بی” کی ویکسینیشن کا تین انجیکشنز کا کورس بھی فری کیا جا رہا ہے۔ ہیپاٹائیٹس “بی” کا علاج مریض کی حالت اور کچھ ٹیسٹوں کی رپورٹ پہ منحصر ہے۔ آج کل عام طور پہ ایک گولی روزانہ لینی پڑتی ہے۔ اور یہ دوائی باقی ساری زندگی بھی لینی پڑ سکتی ہے۔ جبکہ ہیپاٹائیٹس “سی” کے علاج کیلئے تین ماہ دوائی لینی پڑتی ہے۔
یاد رہے کہ ہیپاٹائیٹس “بی” اور “سی” اکٹھے کھانا کھانے سے، کھانے پینے کے برتنوں سے، بچے کو دودھ پلانے سے، ہاتھ پکڑنے سے، گلے ملنے سے، بوسہ دینے سے اور کھانسنے یا چھینکنے سے نہیں پھیلتے۔
ڈاکٹر مزمل ارشاد، انچارج ہیپاٹائیٹس کلینک تحصیل ہیڈکوارٹر تھل ہسپتال لیہ
Thursday 7th November 2024 7:35 am