کچھ سال پہلے کی بات ہےمیں نے ایک دکان کرایہ پر لی ایک دوست نے مشورہ دیا کہ رمضان المبارک کی آمد میں کچھ روز باقی ہیں آپ رول سموسے وغیرہ کا کام شروع کر یں چنانچہ میں جوڑیا بازار سے وہ سارا سامان خرید لایا جو اس کام کے لیے ضروری تھا اب بس ایک کاریگر کی کمی تھی اور ایک دوست کی مدد سے ایک اچھا کاریگر بھی مل گیا، دکان کی شروعات بہت اچھی ہوئی اُسی سال کراچی میں ہیٹ سٹروک کی وجہ سے کافی اموات ہوئیں تھیں کاریگر نے رمضان سے ایک دن پہلے اضافی سامان خرید وا لیا تھا اس لیے کے رمضان میں مال زیادہ بِکے گا سو میں نے خرید لیا مگر پہلے روز ہی اتنی شدید گرمی پڑی کہ عام دن کے مقابلے سے بھی کم مال بِکا میں نے دوست احباب محلے، رشتہ داروں کے گھروں میں بھجوا یا مگر پھر بھی بہت سارے رول، سموسے، پکوڑے بچ گئے تھے میں نے ُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُ انہیں ایک بڑے شوپر میں ڈالا بھائی سے کہا کہ دکان بند کر کے گھر جاؤ اور خود وہ شوپر لیے پیدل چل پڑا کچھ دور میری نگاہ ایک شخص پر پڑی وہ غبارے بیچنے والا تھا ایک پتلے سے بانس پر رنگبرگے غبارے دھاگے سے بندھے تھے جب وہ میرے قریب پہنچا تو میں نے اسے روک لیا اسکے چہرے پر ایک عجیب سی مایوسی تھی میں نے اسے پوچھا بھائی کیوں پریشان ہو تو اس نے کہا کہ بھائی ایک غبارہ نہیں بِکا یہ سوچتا جا رہا تھا کہ میرے بچے بھوکے ہونگے یہ کہتے ہوے اسکی آنکھیں اور یہ سنتے ہوئے میری آنکھیں نم ہوچکی تھیں تبھی میں نے رول،سموسے والا شوپر اسکے ہاتھ میں تھمایا میرے پاس اسے کہنے کیلئے کوئی الفاظ نہ تھے اسکا مال بھی نہیں بِکا تھا اور میرا بھی مگر اللّہ پاک ہر انسان کے حصے کا رزق کسی نہ کسی کے ذریعے یا وصیلے سے ضرور پہنچاتا ہے۔ (دانے دانے پے لکھا ہے کھانے والے کا نام)