عصمت :یعنی گناہوں پرقدرت ہونےکےباوجوداسے نہ کرنااورخودکوگناہوں کی غلاظت دوررکھناکہلاتاہے۔عقل ِانسانی کےلئےاس امرکوتسلیم کرنا یقینا ایک مشکل امرہے کہ کسی بشرسے باوجودِقدرت گناہوں کاعدمِ صدورکیسےممکن ہوسکتا ہے جبکہ اللہ رب العالمین نے گناہوں سے بچنےکی قوت ولیاقت دیگرانسانوں میں بھی تورکھی ہے،تاہم بتقاضہ ِبشریت ان سے ارتکاب ِاثم ہوہی جاتاہے۔لیکن جس طرح ایک عام شخص پرنجاست کی گندگی وخباثت واضح ہوتی ہے اوروہ باوجودقدرت خودکواس سے دورکرلیتاہے .
تویونہی اللہ جل شانہ اپنے پیاروں پر گناہوں کی نحوست ونجاست کوبالکل واضح وآشکار کردیتا، جس کے باعث ان کاخودکوگناہوں سے بچانااتناہی سہل ہو آسان ہوجاتا جس طرح عام انسان کو نجاست سے بچناممکن ہوتاہے ۔نیزاللہ جل شانہ کااپنے پیاروں کی بےشمارمقامات پرتعریف اورگوناگوالقاباتِ حمیدہ سے انہیں یادفرمانااس امرکی واضح دلیل ہے کہ باوجودِقدرت ہی گناہوں سےمحفوظ ومامون رہتے ہیں ،ورنہ اگرانہیں اس پرقدرت ہی نہ ہو،توتعریف کیسی ؟اوربادشاہ ایزدی انبیاء کوخلقِ خدا وکائنات پراپنانائب و خلیفہ مقررکرتاہے تاکہ اس اطاعت وپیروی کی جائے،اگرانبیاء بھی (معاذ اللہ) نحوست ِاثم سے آلودہ ہوتے ،توکیا ان کی اتباع لازم وضروری ہوتی ؟ نہیں بلکہ حرام ہوتی،کہ مخلوق کوفاسق وگمراہ کی پیروی سے اجتناب واحتراز کولازم گرداناگیاہے،جبکہ ہرایک واقف ہے کہ:
انبیاء کی اتباع میں ہی دنیا وآخرت کے کامیابی وکامرانی کے راز سربستہ ہے،توان سے گناہوں کاصدورکیسے ہوسکتاہے،جبکہ ان کی اتباع لازمی و حتمی ہے ۔ لیکن یہاں اس اعتراض وسوال کی توضیح وتشریح بھی لازمی ہے ،کہ اگرانبیاء پر واقیعتاًگناہوں کی حقیقت ظاہرہوتی ہے ،تواس کے باجودحضرت آدمؑ نے ممنوع کردہ درخت سےکیوں کھایا اورحضرت یونسؑ کومچھلی کے پیٹ میں کس وجہ سے رکھاگیا؟،تواس کاجواب یہ ہے کہ انبیاء سے اظہارِ بعثت سےقبل وبعدکسی بھی طریقہ سے گناہوں کاصدورخواہ کبیرہ ہویا صغیرہ،غیرارادی طورپرہو یا اردادۃً،قطعاً ہوتاہی نہیں ، چنانچہ اگرکسی مقام پر بظاہران کی جانب نسبت ِعصیان ومخالفت نظرآئے،توغورکیاجائے،کیاوہاں حکمِ باری تعالی موجودتھا…یا…نہیں ،اگرموجود ہوتوان کے عمل کونسیان اوراگرنہ ہو،تواجتہادی خطاءپرمحمول کیاجائےگاکہ گناہ کاوجودہی قصدوارادے سے ہوتاہے۔اورانبیاءسے نسیان و اجتہادی خطاء کاوقوع ہونا ایک امرممکن اورعصمت انبیاء کے غیرمنافی ہے۔
نیوز فلیکس 27 فروری 2021