Skip to content

یا غوثِ اعظم دستگیر

پانچویں صدی اپنے آخری مراحل میں تھی اور دنیائےاسلام میں شدید انتشار پیدا ہو چکا تھا۔ مسلمان مختلف گروہوں میں بٹ چکے تھے اوراپنی اجتماعی قوت کھو چکے تھے۔ ہر طرف محرومی،شقادت،جبرواستبداد اور فسق وفجور کا عالم تھا۔ عباسی خلفاء کی حثیت بھی کچھ زیادہ نہ تھی۔ جس سے اندلس میں اسلام دم توڑ رہا تھا اور صلیبی آفت بن کر کرا ارض مقدس پر ٹوٹ پڑے تھے۔

اس وقت عالم اسلام پر مایوسی کے بادل چھاگئے تھے۔ اس وقت رحمت الہٰی جوش میں آئی اور اس اندھیرے میں ایک مرد مجاہد کا ظہور ہوا جن کی بشارتیں زمانہ ابی علی بن بسار بصری سے اولیا کرام دیتے آرہے تھے۔ یہ مرد کامل “قطبِ ربانی” محبوبِ سبحانی” الشیخ السید عبدالقادر جیلانی حسنی و الحسینی رحمتہ اللہ علیہ تھے جنہیں آج پورے عالم اسلام میں”غوثِ اعظم” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آپ کا نام عبدالقادر اور کنیت ابو محمد تھی۔ آپ 470 ہجری میں ایران کے صوبہ گیلان میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اسلام کے لیے ساری عمر وقف کی۔ آپ نے دوران سفر بھی تبلیخ جاری رکھی اور حق و سچ کا ساتھ دیا اور اپنی ماں کی فرمابرداری کی۔ آپ نے اپنی زندگی میں بہت سے کارنامے سرانجام دیے۔بہت سے ایسے واقعات جو سننے سے ایک مومن کا دل تازہ ہو جاتا ہے۔ اللہ نے آپ کے ہاتھ میں مردہ زندہ کرے کی حکمت رکھی اور ڈوبی ہوئی کشتی کو کنارے لگایا اور ایک ماں کو خوش کیا۔ آپ نے اپنی زندگی میں بہت سے ارشادات فرمائے جن سے مومنوں کے دل جھوم اٹھے۔ آپ نے 561 میں رحلت فرمائی ایراق کے دارالخلافہ بخداد میں سکونت اختیار کی۔
چند اہم فرمان:-
1۔ وہ انسان کیسا بدنصیب ہے جس کے دل میں جانداروں کے لیے اللہ نے رحم نہیں رکھا۔
2۔ جس شخص کو کوئی تکلیف لاحق نہ ہو اس میں کوئی خوبی نہیں۔
3۔ اکیلا شخص گناہ کی تکمیل سے محفوط ہے گناہ کی تکمیل دو سے ہوتی ہے۔
4۔ مومن شخص اپنا اہل وعیال اللہ پر چھوڑتا ہے اور منافق اپنے مال و دولت پر۔
5۔ تیرا کلام بتادے گا تیرے دل میں کیا ہے۔
6۔ نفس کی بیماریوں کی تمام دوا موت کو یاد کرنا ہے۔
7۔ عقلمند پہلے دل سے پوچھتا ہے پھر زبان سے بولتا ہے۔
8۔ اس کے لیے کیا خوشی جس کا انجام موت ہو۔
آپ فرماتے ہیں کہ جب اللہ کسی جسم میں داخل ہوتا ہے تو پہلے اس جسم میں بسنے والی خواہشات اور آرزوؤں کو تباہ برباد کرتا ہے۔ جب اللہ اس بستی کو اجاڑ لیتا ہے تو خود اس میں آباد ہو جاتا ہے۔ اور پھر یہ بستی از سرِ نو سے آباد ہوتی ہے۔ پہلے اس تعمیر کو ویران کرنا اور پھر استوار کرنا یہی کارِ تصوف ہے یہی اللہ کا طریق ہے۔
ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں کہ “جب تم کو کسی حالت میں رکھا جائے تو اس سے اعلٰی کی بجائے اس سے ادنٰی کی خواہش کر” یہی تیرے لیے بہتر ہے۔
آپ کا فرمان “اے اہلِ دنیا تم بغیر روح کی تصویریں ہو”
بہت اہم فرمان ” جس کو خلوت میں تقویٰ حاصل نہ ہو اور اللہ کی محبت کا دعویٰ کرے وہ شخص جھوٹا ہے”
حضرت غوثِ اعظم کی حالاتِ زندگی سے ایک مومن کے لیے زندگی میں مکمل رہنمائی ہے جس سے مسلمان ایک کامل انسان بن سکتا ہے۔ آپ کے والدین بھی ولی اللہ تھے اور آپ بھی اللہ کے بہت قریب تھے۔ اللہ تعالٰی کی زات نے آپ کو پورے جہان میں آلہ رتبہ عطا کیا اور آنے والوں کے لیے مثال بنایا تا قیامت۔ آپ گیارہوی والے پیر ہیں آپ کے نام پر آج بھی لوگ بے شمار تعداد میں لنگر تقسیم کرتے ہیں۔
اولیاء اللہ کا بچا کچھا کھاؤ جو کچھ ان کے برتنوں میں باقی رہا ہے اس کو پیو۔
“تیرےنام سے مُرشد مجھے جانتی ہے دنیا
تیرے نام کی بدولت میرا نام چمک رہا ہے”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *