منزل میں بھٹک گے ہو؟

In اسلام
January 29, 2021

اللہ ربالعزت بہت بڑا ہے اس ہستی جیسی کوئی اور نہیں وہ تب سے جب کچھ نہیں تھا۔
جب کچھ نہیں تھا تو وہ تھا
جب سب کچھ ہے تو وہ ہے
جب کچھ نہیں ہوگا تو وہ ہوگا
انسان اگر اس بات کو سمجھ جائے کہ اللہ اپنے بندوں سے کتنی محبت کرتا ہے تو کبھی کسی اور کی ضرورت انسان کو نہ رہے جب انسان اللہ کے راستے پر چلنا شروع کرتا ہے تو میرا رب اُسے اپنی طرف آتا دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے ایک طرف ہم اللہ کی جانب جا رہے ہوتے ہیں تو دوسری ہی طرف شیطان گمراہ کرنے کو تیار رہتا ہے۔
جب انسان اللّٰہ کے راستے پر چلنے لگتا ہے تو اُسے کہیں نا کہیں ایسا لگتا ہے کہ اسکی تمام کوششیں ضائع ہو رہی ہیں۔ اور اس طرح وہ کسی اور ہی منزل کا مسافر بن جاتا ہے۔ اور یوں وہ اپنا راستہ کھو بیٹھتا ہے۔ آخر کار وہ بھٹک جاتا ہے۔
یاد رہے کہ بھٹکا ہوا اور کافر تو راہ راست پر آسکتا ہے پر منافق کبھی نہیں۔ اب کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب ہم اللہ کی طرف چلنا شروع کر دیتے ہیں اور وہ دیکھتا ہے کہ اسکا بندہ اب بھٹک رہا ہے تو وہ ہمیں بچا کیوں نہیں لیتا؟
تو بات کچھ یوں ہے کہ اللہ کی طرف اگر آنا ہے تو محنت اور مشقت تو کرنی پڑے گی۔ اور جب انسان دنیا کی کسی ایک آرزو کو پورا کرنے کے لیئے اپنی جان تک لگا دیتا ہے تو اللہ کی طرف آنے کے لیے تو بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ وقتي آرزو بھی جب محنت مانگتی ہے تو وہ تو اللہ ہے اُسکے راستے میں مُشکلات اور پریشانیاں نہ آئیں ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ اور شاید یہ بھٹک جانا بھی ایک امتحان ہو۔ اللہ کی محبت پانا آسان تو نہیں۔
اور چلیں فرض کر لیتے ہیں اللّٰہ آپکو بغیر کسی محنت کے اپنی جانب آنے دیتا ہے اور دوسری طرف وہ انسان ہے جس کو اللہ نے بہت سی مُشکلات سے گزارا ہے۔ اور دونوں اب اللہ کی جانب ہیں پر اب سوال آپ سے ہے کہ زیادہ پیارا اللہ کو کون ہوگا؟
وہ جو ہر مشکل کو گلے سے لگا کر اُسے خوش آمدید کہتا رہا یا وہ جو بغیر کسی مشکل کو اٹھائے آیا ہے؟
یعنی ایک انسان نے اپنی جان لگا دی اللہ کی محبت پانے کے لیئے اور ایک نے کچھ بھی نہیں کیا اور محبت پا لی تو محبت کا پلڑا بھاری کس کا ہوگا؟
اب آپ بتائیں کہ آپ کیا بننا چاہتے ہیں؟
تو یاد رکھیں زندگی میں کچھ بھی ہوجائے اپنے اللہ سے کبھی شکوہ نہیں کرنا اس سے کبھی بدگمان نہیں ہونا یہاں تک کہ کبھی تو ایسا بھی ہوگا کہ دل میں بہت درد ہوگا زبان پر شکوہ اور شکایت تیار ہوگی کہ ابھی وہ نکلے باہر اور آنسو روک کر آپ تھک چُکے ہونگے۔ آپ بہت دکھی ہونگے آس پاس کوئی نہ ہوگا جو آپکا درد سن سکے آپکو گلے لگا سکے۔ ابلیس اپنا جال بُن چکا ہوگا ہر طرف صرف اندھیرے نظر آئیں گے آپکی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی ختم ہو چکی ہوگی اور ابلیس آپکو اللہ کی طرف سے ہٹانے کو تیار کھڑا ہوگا۔ تو یاد رکھیں کہ وہ لمحہ یا تو آپکو اللہ سے بہت قریب کر دے گا یا ابلیس سے بہت قریب کر دے گا۔ آپکو اس وقت اپنی آنکھیں بند کرنی ہیں اور صرف اتنا کہنا ہے کہ اے میرے اللّٰہ اگر تو اسی میں راضی ہے تو میں کون ہوتا ہوں میں بھی راضی ہوں بس تو بھی مُجھ سے راضی ہوجا۔
یقین جانیں آپ اس وقت بہت پُر سکون محسوس کریں گے۔ اور اللہ آپکو بہت نواز دے گا۔ اگر امام حسن اور حسین اتنی قربانیاں دے سکتے ہیں اور بدلے میں صرف یہی مانگتے ہیں کہ اے اللہ ہم تیری رضا میں راضی ہیں بس تو بھی ہم سے راضی ہوجا تو ہم تو کچھ بھی نہیں۔
اپنی بات کا اختتام اسی پر کروں گی کہ اگر کبھی ایسا وقت آپکو درپیش ہو تو ایک دفعہ حضرت حسین و حسن کی قربانیوں کو ضرور سوچنا کبھی بی بی زینب کا درد ضرور سوچنا کبھی بی بی فاطمہ کا ضرور سوچنا اور سب سے بڑھ کر اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کا ضرور سوچنا۔
کبھی بھی اپنے دکھ اور غم کو اہمیت نہ دینا۔ بس صبر کر جانا اور ہو سکے تو اللہ سے کہنا کہ جس میں تو راضی میں بھی راضی۔
جزاک اللہ

/ Published posts: 3

مجھے لکھنے کا بہت شوق ہے