آج کی تحریر اس عظیم ہستی کے نام جو ہر بہن کی زندگی میں موجود ہے ہاں میں جانتی ہوں کہ آپ سب اس نام سے واقف ہو چُکے ہیں پر مجھے یہ کہنے دیں کہ ہر بہن کا بُرا خواب، ہر بہن کا کالا ٹیکہ اور ہر بہن کا باڈی گارڈ “بھائی”. حاضر ہے حاضر ہے بھائی تیرا حاضر ہے اللہ کی ذات کا بڑا کرم ہے کہ اس نے عورت کو جس بھی رُوپ میں پیدا کیا تو ساتھ میں کسی ایسے کو بھی پیدا کیا جو اُسے ہر اعتبار سے مکمل کرتا ہے۔ ماں کے ساتھ باپ کو بنایا، بیوی کی ساتھ شوہر کو اور بہن کے ساتھ بھائی کو بنایا اسکے علاوہ اور بھی بہت سے رشتے ہیں مگر جناب بات کریں بھائی پر تو میری تحریر ہر بھائی والی بہن کے لیئے ہے۔ میری پیاری بہنوں اگر آپ اپنی زندگی میں کسی ایسے شخص سے پریشان ہیں جو آپکو اپنے ذاتی نام کہ علاوہ کالی اور موٹی کہہ کر پکارتا ہے تو پریشان نا ہوں اس تحریر کو غور سے پڑھ لیں امید ہے فائدہ ہی فائدہ ہوگا۔ پر اُس سے پہلے میرا ہر اُس بہن کو سلام جو ایک نہیں دو نہیں بلکہ تین تین بھائیوں کو بہن کم ماں بن کر سدھارنے میں جٹی ہے گو کہ ایک یا دو بھائیوں والی بہن بھی اسی حال سے دو چار ہے پر جو درد تین بھائیوں والی بہن اُٹھا رہی ہے معذرت کے ساتھ پر وہ ایک یا دو بھائیوں والی بہن نہیں سمجھ سکتی۔ بات کریں بھائیوں پر تو بھائیوں کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:- نمبر1۔ جنگلی بھائی جیسے کچھ بھائی تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو سارا دن محض اپنی بہنوں کو ماں باپ سے ڈانٹ پڑوانے کی جدوجہد میں رہتے ہیں۔ اور اگر اُس میں کامیاب ہو جائیں تو ایک کونے میں بیٹھ کر اُس سے لُطف اندوز ہوتے ہیں نہ جانے وہ کونسا ایسا پُر مسرت موقع ہوتا ہے جسے وہ بیس برس بعد بھی یاد رکھتے ہیں اور نہ صرف یاد رکھتے ہیں بلکہ رشتے داروں کی بزمِ محفلِ میں مرچ مثالوں کہ ساتھ اُس بات کو دوہرا کر مزے لیتے ہیں۔ جنگلی بھائی ہوں اور چیخنے چلانے والی بہن نا ہو تو بھئ یہ تو خدا کا کوئی معجزہ ہی ہو سکتا ہے۔ بھائی تب تک چین نہیں لیتے جب تک وہ اپنی بہن کا کام بگاڑ نه دیں مثلاً بھائی ہمیشہ وہیں سے گزرے گا جہاں سے بہن نے پانچ سیکنڈ پہلے فرش کو رگڑ رگڑ کر صاف کیا ہو اور خدا کی کرنی تو دیکھیں کہ ماں اُس دس مرلے کے چکا چوند گھر کو چھوڑ کر بیٹی کو تیر ٹھیک اسی جگہ پر مارے گی جہاں پر بھائی نے کُچھ دیر پہلے ہی اپنی کارروائی کی ہوتی ہے اگر صفائی میں بیٹی بتائے کہ بھائی نے جان کر کیا ہے تو ماں کہ سامنے فرش بھی اپنی تصویر ایسے پیش کرتا ہے کہ جیسےاس مظلوم کی صفائی ہوئی ہی نہ ہو اور وہاں ایسا لگتا ہے کہ جیسے بہن کے سارے ستارے گردش میں ہیں۔ گیلا تولیہ بستر پر پھیکنا، ٹوتھ برش کا ڈھکن کھلا چھوڑ دینا، گندے کپڑوں کو مائیکل جیکسن کے انداز میں آدھا مشین کے اندر اور آدھا باہر پھینکنا، اپنی پلیٹ صاف کرنے کے بعد بہن کی پلیٹ سے کھانا یہ وہ تمام کام ہیں جنہیں جب تک بھائی سر انجام نہ دیں انکو سکون نہیں ملتا۔ نمبر2۔ سُست بھائی ایسے بھائیوں کے تو ششکے ہی الگ ہوتے ہیں نہ خود اٹھ کر پانی پینے کی فکر نہ بہنوں کو ڈانٹ پڑوانے کی فکر یہ اپنے کام سے نہیں انداز سے پہچانے جاتے ہیں۔ اگر آپکا بھائی اسی قسم میں آتا ہے تو اس میں اسکا کوئی قصور نہیں چوں کہ یہ بہت منتوں اور مرادوں بعد اس دنیا میں آئے ہوتے ہیں اس لیے انکو ایسا بنانے میں سارا عمل دخل گھر کے بزرگ حضرات یعنی دادی اور نانی کا ہوتا ہے۔ اگر آپ نے برگر کھایا ہے اور ساتھ بیٹھے بھائی سے نہیں پوچھا تو جناب آپکی کلاس آپکی ماں کے لینے سے پہلے آپکی دادی یا نانی لیں گی اور اگر آپ کوئی کام کر رہی ہیں اور کام کے qدوران بھائی نے آپکو کوئی کام کہہ دیا اور آپکا جواب ہوا کہ کام ختم کرنے کے بعد کرتی ہوں تو آپ کا جو مقام اور قدر تھی وہ اب نہیں رہے گی اور آپکے گلاس دینے سے پہلے ہمارے بُزرگ وہ کام کر چُکے ہونگے۔ اور ایسی بہنوں کے لیے میری دل سے دعا ہے کہ انکو اپنا کھویا ہوا مقام واپس مل جائے۔ نمبر3۔ ٹیکس والے بھائی ہمیشہ کے غریب اور بہنوں سے چنگی ٹیکس وصول کرنے والے یہ بھائی اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کی جیب میں آنے والا ٹیکس کالج کے فائن میں جاتا ہے اور ماؤں سے ملنے والی رقم دوستوں کے ساتھ مزے کرنے میں۔ اگر تو بہنوں نے ٹیکس دے دیا تو ٹھیک ورنہ دس کی چیز کو پندرہ کا بتا کر وصول کیا جاتا ہے بہنوں کو ایسے ہی بھائی پسند آتے ہیں اور اگر کوئی اُن بہنوں کو اصل بات بتا دے تو اُس سے بڑا دشمن اُن کے لیے کوئی نہیں ہوتا پھر چاہے وہ انکی اپنی سگی بہن ہی کیوں نہ ہو ایسے بھائیوں کے ہتھے چڑھنے والی عموماً چھوٹی بہنیں ہوتی ہیں اور مجھے ان معصوم بہنوں پر بہت ترس آتا ہے۔ نمبر4۔ ماموں اب آپ سب سوچ رہے ہونگے کہ یہاں بات بھائیوں پر ہو رہی تو ماموں کا ذکر کہاں سے آگیا تو صبر کرو رکو ذرا -یہ مت بھولیں کہ ہمارے ماموں بھی تو اپنی بہنوں کے بھائی ہیں تو انکا ذکر تو بنتا ہے۔ ارے وہی جن کے قصے سن سن کر ہم بڑے ہوئے ہیں نہیں سمجھے؟ میں سمجھاتی ہوں یاد ہے جب بچپن میں ریموٹ کے پیچھے بھائی بہن لڑ پڑتے تھے اور بات ہاتھا پائی تک پونچھتی تھی تو فیصلہ ماں کے پاس آتا تھا تو ماں کیا کہتی تھی کہ ہمیں تو یاد ہی نہیں پڑتا کہ کبھی ہمارے بھائی نے ہم پر ہاتھ بھی اٹھایا ہو یا
اللہ ربالعزت بہت بڑا ہے اس ہستی جیسی کوئی اور نہیں وہ تب سے جب کچھ نہیں تھا۔ جب کچھ نہیں تھا تو وہ تھا جب سب کچھ ہے تو وہ ہے جب کچھ نہیں ہوگا تو وہ ہوگا انسان اگر اس بات کو سمجھ جائے کہ اللہ اپنے بندوں سے کتنی محبت کرتا ہے تو کبھی کسی اور کی ضرورت انسان کو نہ رہے جب انسان اللہ کے راستے پر چلنا شروع کرتا ہے تو میرا رب اُسے اپنی طرف آتا دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے ایک طرف ہم اللہ کی جانب جا رہے ہوتے ہیں تو دوسری ہی طرف شیطان گمراہ کرنے کو تیار رہتا ہے۔ جب انسان اللّٰہ کے راستے پر چلنے لگتا ہے تو اُسے کہیں نا کہیں ایسا لگتا ہے کہ اسکی تمام کوششیں ضائع ہو رہی ہیں۔ اور اس طرح وہ کسی اور ہی منزل کا مسافر بن جاتا ہے۔ اور یوں وہ اپنا راستہ کھو بیٹھتا ہے۔ آخر کار وہ بھٹک جاتا ہے۔ یاد رہے کہ بھٹکا ہوا اور کافر تو راہ راست پر آسکتا ہے پر منافق کبھی نہیں۔ اب کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب ہم اللہ کی طرف چلنا شروع کر دیتے ہیں اور وہ دیکھتا ہے کہ اسکا بندہ اب بھٹک رہا ہے تو وہ ہمیں بچا کیوں نہیں لیتا؟ تو بات کچھ یوں ہے کہ اللہ کی طرف اگر آنا ہے تو محنت اور مشقت تو کرنی پڑے گی۔ اور جب انسان دنیا کی کسی ایک آرزو کو پورا کرنے کے لیئے اپنی جان تک لگا دیتا ہے تو اللہ کی طرف آنے کے لیے تو بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ وقتي آرزو بھی جب محنت مانگتی ہے تو وہ تو اللہ ہے اُسکے راستے میں مُشکلات اور پریشانیاں نہ آئیں ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ اور شاید یہ بھٹک جانا بھی ایک امتحان ہو۔ اللہ کی محبت پانا آسان تو نہیں۔ اور چلیں فرض کر لیتے ہیں اللّٰہ آپکو بغیر کسی محنت کے اپنی جانب آنے دیتا ہے اور دوسری طرف وہ انسان ہے جس کو اللہ نے بہت سی مُشکلات سے گزارا ہے۔ اور دونوں اب اللہ کی جانب ہیں پر اب سوال آپ سے ہے کہ زیادہ پیارا اللہ کو کون ہوگا؟ وہ جو ہر مشکل کو گلے سے لگا کر اُسے خوش آمدید کہتا رہا یا وہ جو بغیر کسی مشکل کو اٹھائے آیا ہے؟ یعنی ایک انسان نے اپنی جان لگا دی اللہ کی محبت پانے کے لیئے اور ایک نے کچھ بھی نہیں کیا اور محبت پا لی تو محبت کا پلڑا بھاری کس کا ہوگا؟ اب آپ بتائیں کہ آپ کیا بننا چاہتے ہیں؟ تو یاد رکھیں زندگی میں کچھ بھی ہوجائے اپنے اللہ سے کبھی شکوہ نہیں کرنا اس سے کبھی بدگمان نہیں ہونا یہاں تک کہ کبھی تو ایسا بھی ہوگا کہ دل میں بہت درد ہوگا زبان پر شکوہ اور شکایت تیار ہوگی کہ ابھی وہ نکلے باہر اور آنسو روک کر آپ تھک چُکے ہونگے۔ آپ بہت دکھی ہونگے آس پاس کوئی نہ ہوگا جو آپکا درد سن سکے آپکو گلے لگا سکے۔ ابلیس اپنا جال بُن چکا ہوگا ہر طرف صرف اندھیرے نظر آئیں گے آپکی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی ختم ہو چکی ہوگی اور ابلیس آپکو اللہ کی طرف سے ہٹانے کو تیار کھڑا ہوگا۔ تو یاد رکھیں کہ وہ لمحہ یا تو آپکو اللہ سے بہت قریب کر دے گا یا ابلیس سے بہت قریب کر دے گا۔ آپکو اس وقت اپنی آنکھیں بند کرنی ہیں اور صرف اتنا کہنا ہے کہ اے میرے اللّٰہ اگر تو اسی میں راضی ہے تو میں کون ہوتا ہوں میں بھی راضی ہوں بس تو بھی مُجھ سے راضی ہوجا۔ یقین جانیں آپ اس وقت بہت پُر سکون محسوس کریں گے۔ اور اللہ آپکو بہت نواز دے گا۔ اگر امام حسن اور حسین اتنی قربانیاں دے سکتے ہیں اور بدلے میں صرف یہی مانگتے ہیں کہ اے اللہ ہم تیری رضا میں راضی ہیں بس تو بھی ہم سے راضی ہوجا تو ہم تو کچھ بھی نہیں۔ اپنی بات کا اختتام اسی پر کروں گی کہ اگر کبھی ایسا وقت آپکو درپیش ہو تو ایک دفعہ حضرت حسین و حسن کی قربانیوں کو ضرور سوچنا کبھی بی بی زینب کا درد ضرور سوچنا کبھی بی بی فاطمہ کا ضرور سوچنا اور سب سے بڑھ کر اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کا ضرور سوچنا۔ کبھی بھی اپنے دکھ اور غم کو اہمیت نہ دینا۔ بس صبر کر جانا اور ہو سکے تو اللہ سے کہنا کہ جس میں تو راضی میں بھی راضی۔ جزاک اللہ
زندگی میں کبھی بھی کچھ بھی ایک جیسا نہیں رہتا سب کچھ وقتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدل جاتا ھے۔ اسی طرح لوگ بھی بدل جاتے ہیں کچھ لوگ سب کچھ کھو کر اللّٰہ کی طرف آتے ہیں اور کچھ لوگوں کو اللہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے ایسے لوگوں پر اللّٰہ پاک کی بڑی رحمت ہوتی ہے اور وہ بہت خوش قسمت ہوتے ہیں۔ اللہ زندگی کے مختلف حالات سے گزار کر انھیں اپنی طرف لے آتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اگر ایک خاص نشانی بتاؤں تو یہ لوگ دل کے بہت صاف ہوتے ہیں۔ اللّٰہ ایسے لوگوں کو دلدل میں ڈالتا رہتا ہے اور آزماتا ہے پر کبھی ساتھ نہیں چھوڑتا۔ مجھے ایسے لوگوں پر رشک آتا ہے اور دماغ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اللہ ان لوگوں سے کتنی محبت کرتا ہوگا نا؟ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے۔ ایک وقت ہوتا ہے جب یہ لوگ اللہ سے محبت بھی اپنے فائدے کے لیے رکھتے ہیں۔ پر اُنکی زندگی میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوتا ہے کہ وہ منہ کے بل زمین پر آ گرتے ہیں پھر انہیں لگتا ہے کہ انکے لیے اٹھنا بہت مشکل ہے وہ منہ کے بل پڑے اپنی آنکھیں آسمان کی جانب رکھتے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنے رب سے شکوہ کر رہے ہوں اور اللہ جوابِ شکوہ دے رہے ہوں یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ انسان کی آنکھیں نم نا ہو جائیں۔ پھر اسی انسان کو اللہ کھڑا کرتا ہے اور سکھاتا ہے ہر ایک ایک چیز پھر مشکلات آتی ہیں، پاؤں لڑکھڑا جاتے ہیں، ہمت ٹوٹ جاتی ہے، انسان تھک بھی جاتا ہے، انسان رو بھی پڑتا ہے، انسان پھر شکوہ بھی کرتا ہے پر ایک چیز ہے جسے وہ اپنے پاس بھی نہیں آنے دیتا اور وہ ہے نا اُمیدی اور مایوسی۔ وہ انسان کتنا ہی پھر ٹوٹ کیوں نہ گیا ہو پر اپنے اللہ سے نا امید نہیں ہوتا کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اللہ اُسکے ساتھ ہے۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی خاص رحمت ہوتی ہے۔ یہی لوگ ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ اللہ سے سچی محبت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے اور اگر بندہ اس پر پورا اتر جائے تو اللہ بہت کچھ نواز دیتا ہے۔ بس ہمیں یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہئے کہ وہ ہم سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔ اور آزمائشیں اسی پر ڈالتا ہے جس سے اُسے محبت ہوتی ہے۔ ہمیں بس صبر کرنا ہے اسکی ہر آزمائش پر اور کہنا ہے کہ اللہ جس میں تو راضی اسی میں میں بھی راضی۔ رستے کھلتے جائیں گے اور منزل مل جائے گی۔ ہمیں اللہ سے نا امید نہیں ہونا اللہ سب کا ہے وہ سب سے پیار کرتا ہے پر افسوس اس بات کا ہے کہ اگر کوئی اس سے سچی محبت نہیں کرتا تو وہ ہے انسان وہ ہے انسان۔