سب جانتے ہوئے بھی کیوں آگے بڑھے
آج کا یہ کالم اس بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کیلئے لکھ رہا ہوں کہ امام عالی مقام اور خاندانِ اھلبیت سمیت سب کو امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کا پتہ تھا اور اس کے باوجود کسی فرد نے انہیں کیوں نہیں روکا اور وہ بھی سب جانتے تھے تو آپ خود ہی پیچھے ہٹ جاتے اور ان سب چیزوں سے دستبردار ہوجاتے-آخر وہ کون سی چیزیں ہیں جس کے پیشِ نظر امام کا ہر قدم آگے کی طرف ہی اُٹھتا تھا-ان سب پر روشنی ڈالنے سے ہم کچھ امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شان و عظمت سمجھتے ہیں
قرآن پاک میں حسنین کریمین کا ذکر
حضرت علّامہ مولانا پیر مہر علی شاہ سیّد زادے ولی کامل سچے عاشق رسول زبردست عالم دین قرآن و حدیث کی گہری سمجھ بوجھ رکھنے والے اور غوث پاک رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اولاد میں سے ایک بزرگ شخصیت ہیں ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے ایک پادری نے سوال کیا کہ تم مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن مجید میں ہر شئے کا بیان ہے اور حسنین کریمین جوکہ نواسہ رسول علیہ الصلوۃ و السلام ہیں اور انہوں نے اسلام کی خاطر اتنی بڑی قربانیاں دیں لیکن قرآن مجید میں امام حسین کا نام تک موجود نہیں لہٰذا مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہرگز درست نہیں کہ قرآن میں ہر چیز کا بیان ہے
پیر مہر علی شاہ صاحب نے اطمینان سے اس کا اعتراض سننے کے بعد اُس سے پوچھا کیا تم قرآن پاک پڑھا ہے ؟ پادری بولا جی ہاں اور ابھی اس وقت بھی میری جیب میں ہے اور قرآن شریف نکال کر بولا فرمائیے کہاں سے پڑھوں ؟پیر صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہیں سے بھی پڑھئیے-پادری صاحب نے پڑھنا شروع کیا!!!اَعُوْذُ بِااللّٰهِ مِنَ الْشَّیْطنِ الْرَجِیْمِ ، بِسْمِ اللّٰهِ الْرَّحْمنِ الْرَّحِیْمِ۔ پیر مہر علی شاہ صاحب نے اتنے پر ہی روک دیا اور فرمایا علمُ الاعداد کے اعتبار سے بسم اللّٰہ شریف کے 786 عدد ہیں ذرا توجہ فرمائیں
لفظِ ” امام حسین” کے عدد ہیں : 210 اور
امام حسین کا سن پیدائش : ” 4″ ھجری ہے
آپ کا سن شہادت : “61” ھجری ہے
لفظِ کرب و بلا کے عدد : 261
لفظِ ” امام حسن ” کے عدد : 200 اور
امام حسن کا سن شہادت : 50 ھجری
210+4+61+261+200+50=اور یہ کل 786 ہوئے
پیر مہر علی شاہ صاحب نے فرمایا، اے پادری قرآن مجید کی ایک ہی آیت جو تونے پڑھی ہے اسی میں امام حسین کا نام ، سالِ پیدائش ، سالِ شہادت ، اور مقامِ شہادت کا ذکر موجود ہے اور اسکے ساتھ ساتھ امام حسن کا نام اور سالِ شہادت موجود ہے اور اس آیت سے ان دونوں بھائیوں کے امام ہونے کا بھی پتہ چلتا ہے ایک شعر عرض ہے
بے ادب گستاخ فرقے کو بتادے اے حسن
یوں کہا کرتے ہیں سنّی داستانِ اہلبیت
انگریز پادری نے جب ایمان افروز جواب سنا تو اس کے دل میں ہدایت کا نور جگمگا اُٹھا اور وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا
نگاہِ ولی میں وہ تاثیر دیکھی!!!!
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی!!!
بوقتِ ولادت ہی مشہور شہادت
امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ولادت کے وقت ہی آپ کی شہادت کی خبر مشہور ہوگئی تھی، حضرت جبرائیل امین علیہ السلام نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر خبر دی یارسول اللّٰهُ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ و آلہ وسلَّم آپ کے نواسے کو آپ کی اُمّت شہید کر دے گی، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ کے مقامِ شہادت یعنی کربلا کی مٹی بھی بارگاہ رسالت میں پیش کی ( کتاب :سوانح کربلا)
قارئین حضرات : دیکھئیے تو تقدیر کا لکھا کس طرح پورا ہوا، امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے 72 وفادار رفقاء کے ساتھ، 10 محرم الحرام سن 61 ھجری کو میدان کربلا میں یزید پلید کے خلاف حق کی آواز بلند کرتے ہوئے، نانا کے دین پر پہرا دیتے ہوئے، ظلم سہتے ہوئے، دکھ اور غم کے پہاڑ کے سامنے ثابت قدم رہ کر انتہائی عزت کے ساتھ، شجاعت کے ساتھ، شان و شوکت کے ساتھ شہید ہوئے اور رہتی دنیا تک کیلئے باطل کے خلاف کھڑے ہونے کا، حق پر چلنے کا، عزت سے جینے کا، عزت سے مرنے کا، شجاعت، بہادری کا، استقامت کا اور صبر و رضا کا درس دے گئے. حسینوں کیلئے عرض ہے
فطرت کی مصلحت کا اشارہ حسین ہے
قربانیوں کی آنکھ کا تارا حسین ہے
وہ اس لئے لڑے کے ظلم کو مٹا سکیں
پھر کیوں نہ ہم کہیں ہمارا حسین ہے
جزبہ ایمانی حکمتِ عملی کے ساتھ
عام طور پر شہادت امام حسین کا جس طرح ذکر کیا جاتا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ امام عالی مقام بہت جوشیلے تھے اور جیسے ہی یزید پلید تخت پر جبراً بیٹھا آپ جوش میں آ کر 72 ساتھیوں کے ساتھ میدان کربلا میں پہنچ گئے اور یزیدیوں کے خلاف لڑتے لڑتے شہید ہو گئے، حالانکہ ایسا نہیں ہے
امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ جذبہ ایمانی والے، قرآن پڑھنے والے، قرآن سمجھنے والے،
حدیث پڑھنے والے، حدیث سمجھنے والے دین کی کامل سمجھ بوجھ رکھنے والے، اور دین کے رازوں کی سمجھ رکھنے والے تھے اور اسی لئے امام پاک کا جذبہ خالی جذبہ نہیں تھا بلکہ جذبہ ایمانی تھا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت تو ازل سے لکھی ہوئی تھی، آپ نے کربلا کے میدان میں شہید ہونا ہی تھا، اس کے اسباب بننے ہی تھے، امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ خود بھی اپنی شہادت کے متعلق جانتے تھے، اس کے باوجود امام پاک نے کسی لمحے بھی حکمتِ عملی کو نہیں چھوڑا، امام پاک نے پوری پوری حکمتِ عملی سے کام لیا اور کمالِ گہرائی کے ساتھ قرآن و حدیث کو سمجھ کر پوری عقلمندی سے فیصلے کئے اور دین پر پوری طرح عمل کرتے ہوئے دین کیلئے قربانی پیش کی ۔
قابل غور دو باتیں
نمبر ایک یزید پلید کی بیعت کرنا : اس میں امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بالکل بھی مصلحت پرستی نہیں کی ایک سیکنڈ کے کروڑویں حصے میں بھی امام حسین نے یزید پلید کی بیعت نہیں کی
دوسری بات یزید پلید کے خلاف عملی اقدامات کرنا : اس میں امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس طرح حکمتِ عملی اختیار فرمائی کہ یزید پلید 60 ھجری میں رجب کے مہینے میں تخت پر بیٹھا، یزید نے مدینہ منورہ کے گورنر ولید کو خط لکھا امام پاک سے بیعت لینے کا کہا، ولید نے رات کو امام پاک کے پاس پیغام پہنچایا پھر امام ولید کے پاس تشریف لائے اور ولید نے یزید پلید کی بیعت لینے مطالبہ کیا، اس پر امام حسین نے یزید کی بیعت نہ کی اور بلکہ اپنے گھر والوں کے ساتھ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے، رجب سے لیکر ذوالحج تک تقریباً پانچ مہینے خاندانِ اھلبیت مکہ مکرمہ میں ہی رہے اور اس دوران خاموشی اختیار فرمائی۔ ان 5 مہینوں میں کوفہ والوں کی طرف سے مسلسل خط آتے رہے کوفہ والے درخواست کرتے تھے : عالی جاہ ، یزید سخت فاسق و ظالم ہے ہم اس کی بیعت نہیں کرنا چاہتے، اس وقت روئے زمین پر صرف آپ خلافت کے حقدار ہیں آپ ہی یزید کو ظلم و ستم سے روک سکتے ہیں آپ تشریف لائیے، ہم آپ کی بیعت کریں گے آل کیلئے تَن، مَن، دَھن کی بازی لگا دیں گے ۔
شرعی مسئلہ
ایک طرف نااہل ہو اور دوسری طرف خلافت اور عہدے کا اہل ہو، مسلمان اُس اہل کو عرض کریں کہ آپ منصب کو قبول کیجئے تاکہ اُمّت نااہل کے ظلم و ستم سے بچ جائے تو اس صورت میں جو خلافت اور عہدے کا اہل شخص ہے اُس پر ضروری ہے کہ وہ منصب کو قبول کرے تاکہ مظلوموں کی مدد ہو ۔ اب اگر امام پاک تشریف نہ لاتے تو روز قیامت کوفہ والے یہ عذر کرتے کہ یا اللّٰهُ پاک ہم نے امام حسین کی خدمت میں بار بار عرض کی جب وہ تشریف نہ لائے تو ہم مجبور ہو گئے اور یزید چاہیے ظالم و فاسق تھا ہمیں اسکی بیعت کرنی پڑی ۔تو اب جبکہ امام پاک پر شرعاً لازم ہوچکا تھا تو حکمتِ عملی اختیار کرتے ہوئے کوفے کا جائزہ لینے کیلئے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیجا ۔یہ حکمت عملیاں اختیار کرنے کے بعد آپ کوفے کیلئے روانہ ہوئے مگر افسوس کوفہ والے دھوکے باز اور بے وفا نکلے، خود امام حسین کو بلوا کر یزیدیوں کے حوالے کر دیا یوں امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے 72 رفقاء کے ساتھ دین کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرما گئے . اس موقع پر شاعر نے کیا خوب لکھا ہے
ہزاروں میں بہتَّر تَن تھے تسلیم و رضا والے
حقیقت میں خدا اُن کا تھا اور یہ تھے خدا والے
کسی نے وطن پوچھا تو حضرت نے فرمایا
مدینے والے کہلاتے تھے ، اب ہیں کربلا والے
حسین ابنِ علی کی کیا مدد کر سکتا تھا کوئی
یہ خود مُشکِل کُشا تھے اور تھے مُشکِل کُشا والے
دوائے دردِ عصیاں پنج تن کے در ملتی ہے
زمانے میں یہی مشہور ہیں دارُالشِّفا والے
ظالم بننا یزیدیت ہے
واقعہ کربلا میں ظالم کون تھا؟ مظلوم کون تھا؟ جس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ظالم بننا یزیدیت ہے اور مظلوم بننا کردار امام حسین کا ایک نہایت ہی دلکش وصف ہےشاید ہم کہنے کو تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم حسینی ہیں اور ہم کسی پر ظلم نہیں کرتے لیکن اگر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو ایک بھاری اکثریت ظالموں کی نکل آئے گی -جی ہاں ! یہ سچ ہے کیونکہ ظلم صرف قتل کرنا نہیں، اس کا مفہوم بہت وسیع ہے
شریعت میں ظلم کی تعریف
اعلیٰ حضرت رحمۃاللہ علیہ کے فرمان کا خلاصہ ہے : ہر وہ نقصان یا تکلیف جو شرعی اجازت کے بغیر کسی کے دین، عزّت، جان، جسم، مال یا صرف دل کو پہنچائی جائے، یہ تکلیف چاہیے زبان سے ہو، چاہیے فعل سے ہو، چاہیے ترک سے ( یعنی کوئی کام کرنا تھا نہ کیا جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچی ہو ) اسے ظلم کہتے ہیں-ظلم کی کل 18 قسمیں ہیں اور پھر انکی آگے سینکڑوں صورتیں بنتی ہیں دیکھئیے ظلم میں کیا کیا چیزیں شامل ہیں
آستینیں چڑھا کر کسی کی طرف لپکا اُس کا دل دکھا یہ ظلم ہے
کسی کو گھور کر دیکھا اسے تکلیف ہوئی یہ ظلم ہے
کسی کا قرض دبا لیا
کسی کو گالی دی
کسی کو طعنہ دیا
کسی کا مذاق اڑایا
کسی کو طنز کیا
کسی کا نام بگاڑا
کسی کی چوری کی
کسی کا مال چھینا
کسی کو لوٹا
کسی سے رشوت لی
کسی سے سود کھایا
جوئے کے ذریعے مال بٹورا
ناپ تول میں ڈنڈی ماری
والدین کو ستایا
پڑوسی کو تکلیف دی
رات کو شور شرابا کرکے دوسروں کی نیند خراب کی
راستے میں کوڑا پھینک کر
غلط پارکنگ کرکے تکلیف کا سبب بنے
الزام لگایا
بہتان باندھا
بلا اجازت کسی کی کوئی چیز استعمال کی یہ سب ظلم ہے اور ظلم چاہیے چھوٹا ہو چاہے بڑا ظلم ظلم ہی ہے اگر ہم سچے حسینی بننا چاہتے ہیں تو ہر قسم کا ظلم چھوڑ کر شریف انسان بننا ہوگا اور اگر خدانخواستہ پہلے کسی پر ظلم کیا ہے تو اس سے معافی مانگ کر توبہ بھی کرنی ہوگی -اللّٰهُ ربُّ العالمین ہمیں سچا پکا حسینی بنادے
حسین ایک علامت ہے زندگی کیلئے
حسین عزمِ سفر ہے مسافری کیلئے
از قلم : علّامہ مولانا محمد وقاص مدنی
Pingback: How will Hazrat Fatima (RA) rule Paradise? - نیوز فلیکس