ابتداء اسلام ۔۔۔۔
اسلام ایک آفاقی مذہب ضرور ہے لیکن اسلام کا سفر فاران کی چوٹی سے شروع ہوا تو آہستہ آہستہ ،بڑے آرام سے آگے بڑھتا گیا۔اسلام کا پیغام بہت دیرسے لوگوں کے کانوں تک پہنچا،بڑے نشیب و فراز سے گزرنا پڑا ،غیروں کا ظلم و ستم،اپنوں کی بے رخی،قبیلے کی دشمنی ،اور خانداز کی چشم پوشی نے مسلمانوں کے ہمت کا امتحان ضرور لیا لیکن اسلام رکا نہیں آگے کو ہی بڑھتا گیا۔اور آگے کا ہو کر رہا۔
جب اسلام کے نام لیوا چار تھے۔
اسلام نے سفر شروع کیا تو محافظ صرف چار تھے ،دشمن ہر طرف دندناتے رہے،اوراسلام کو مٹانے پر تل گئے لیکن اسلام باقی رہا اور محافظ ملتے رہے۔دشمنوں کے منصوبے ٹوٹ گئے،ان کے عزائم خاک میں مل گئے،وہ اسلام کو مٹانا چاہتے تھے پر خود مٹ گئے۔چار سے تعداد
بڑھ گئی اور دارارقم میں محافظوں کا یہ قافلہ 45 سے آگے پہمچ گیا۔
پھر بھی نہ ظلم رکا نہ ستم میں کمی آئی،نہ عروج ملا اور نہ سہارے کی امید تھی۔ایسے وقت میں اسلام نے دشمنوں کی دھاک بھی دیکھی اور رشتہ داروں کی نفرت سے بھی سامنا کرنا پڑا،جائیداد سے محرومی اور خاندان سے قطع تعلقی ان کا مقدر بنا ۔لیکن وہ لوگ بڑھتے رہے اور شعب ابی طالب میں85 هو گئے۔
جب وطن چھوڑنا پڑا تو ہمت جواب دے گئی۔ لیکن اسلام کے محافظ پھر بھی بڑھ گئے ۔لوگوں نے ڈرایا،دھمکایا،گھر بار لاٹنے کی دھمکیاں ملی،جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا منصوبہ بنا۔پھر بھی هجرت کے وقت وه 115 هو چکے تھے۔وطن سے دور ،دشمنوں کے نشانے پر ،جب جان لٹانے کی بات آئی تو ممکن تھا وہ ہمت ہار جاتے،جان کی فکر دامن گیر رہتی،وہ آپﷺ کا ساتھ چھوڑ جاتے لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ جہاد کا جذبہ اور آپﷺ کی محبت غالب آگئی۔اسلام کا مٹھاس،رسول اللہﷺ کی صحبت،قرآن کی تاثیر غالب آ گئی اور وہ غزوه بدر میں 313 تک پہنچ گئے۔پھر رکے نہیں بلکہ
رفته رفته برهتے چلے گئے۔
صلح حدیبیه میں تعداد 1400 تو فتح مکه
کے موقع پر 10 هزار تهی۔غزوه حنین میں 12 هزار تو
غزوه تبوک میں 40 هزار کے لگ بھگ ۔پورے قبیلے اسلام میں شامل ہو گئے،فوج در فوج اسلام کو محافظ مل گئے،اسلام کی شان و شوکت کے آگے بڑے بڑے منار گرے،مسلمانوں کی زندگی دیکھ کر بڑے بڑے سرغنے اسلام کو سہارا دینے آگے بڑھ گئے۔پھر وہ وقت آیا
جب ایک ساتھ جمع ہوئے اور اسلام نے 23 سالہ سفر کا جائزہ لیا توخطبه_حجته_الوداع میں ان کی تعداد سوا لاکھ تھی۔ 23 سال میں اس قدر افرادی قوت اور جان لٹانے کا جذبہ کسی اور مذھب کا اعجاز نہیں۔
یه اعجاز صرف اسلام کو هی حاصل رہا، وه لوگ اسلام میں اس قدر گھل مل گئے۔که اسلام ان کا فطرت ثانیہ بن چکا تھا،
وہ یقینا مٹی کے بنے ھوئے تھے۔مگر پرواز آسمان سے اوپر تھی،
وه موت سے گلے لگانا چاہتے تھے اور موے دور کھڑی ہو کر مسکرا رہی ہوتی تھی،موت ان سے ڈرتی تھی۔
صحابه تو وه تھے جن کا رب ﷲ تھا،
جن کا مدرسه بیت ﷲ
جن کے استاد رسول صلی ﷲ علیه وسلم
اورجن کا نصاب کتاب ﷲ.تب جا کر یہ چار سے سوا لکھ تک پہنچ گئے۔
شاہ حسین سواتی