جس دنوں میں بنی اسرائیل کی طاقت و قدرت زوال کا شکار تھی،ایْسے میں مسند قضاوت حضرت سموئیل نبی خدا نے سنبھالی ،اعتقادات میں رونما ہونے والے انحرافات کی اصلاح فرمائی اور بنی اسرائیل کو متحد کیا،مختلف علاقوں کا سفر کرکے لوگوں کو بیدار کیا اور خدا کے حضرت موسیٰ سے کئے ہوئے وعدہ پر لوگوں کے اعتماد کو بحال کیا۔
مزامیر “زبور حضرت داؤد” کے ایک بڑے حصے کی تالیف کو حضرت سموئیل نبی کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔حضرت سموئیل نبی علیہ السلام کی وجہ سے بنی اسرائیل کو بہت سی کامیابیاں ملیں ۔جب وہ بوڑھے ہوگئے تو انہوں نے اپنے دوبیٹوں کو بنی اسرائیل کا قاضی مقرر کیا لیکن بنی اسرائیل ان پر راضی ہوئے۔دوسری اقوام سے لڑائیوں اور جنگو کی وجہ سے بنی اسرائیل کو ایک بادشاہ کی ضرورت تھی۔اسلئے بنی اسرائیل کے لوگ حضرت سموئیل علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں ان سے ان پر ایک بادشاہ معین کرنے کی درخواست کی۔حضرت سموئیل علیہ السلام ناراض ہوئے لیکن اس کے باوجود انہوں نے خدا کی بارگاہ میں بنی اسرائیل کیلئے دعا کی ،اللہ تعالی نے جواب دیا میں فرمایا “اپنی قوم کا مدعا سنو اور پریشان نہ ہو اور انہیں اس عہدہ کی سخت شرائط سے بھی آگاہ کردو”۔حضرت سموئیل علیہ السلام نے بادشاھت کی سخط شرائط ان کے سامنے رکھیں تو انہوں نے قبول کرلیا۔۔
حضرت سموئیل علیہ السلام نے بادشاھت کیلئے قرعہ ڈالہ تو قبیلہ بنامین کے شائول طالوت بن قیس کا نام نکلا اور حضرت طالوت کو بادشاھ منتخب کیا گیا۔حضرت سموئیل نے بادشاھت کے اصول تحریر فرمائے اور بنی اسرائیل کے طاقتور اور با اثر افراد کو حضرت طالوت کے ہمراہ کردیا۔طالوت کے انتخاب کے بعد بنی اسرائیل اور کنعانیوں کے درمیان جنگ ہوئی جس میں بنی اسرائی کو فتح ملی۔ اس جنگ میں دشمن فوج کا سپہ سالار جالوت تھا ۔جالوت نے ان سے مبارزہ طلبی کی تو بنی اسرائیل گھبرا گئے اور جالوت کے قتل کرنے پر انعام رکھا گیا۔حضرت داؤد نے طالوت سے گفتگو کے بعد جالوت سے مقابلہ کیا اور اور اس کی پیشانی پر پتھر مار کراسے قتل کردیا۔جالوت کی موت کا منظر دیکھ کر دشمن فوج کے حواس خطا ہوئے اور وہ میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے اور اس طرح بنی اسرائیل یہ جنگ جیت گئے۔۔طالوت کے قتل کے حضرت داؤد علیہ السلام حبرون چلے گئے اور وہاں پر سبط یہودا نے انہیں جنوب کا بادشاہ بنادیا۔