حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ السلام ابتدائی تاریخ کے مشہور ترین صوفیاء میں سے ایک ہیں آپ 718 ءکے لگ بھگ پیدا ہوئے اور 725 کے آس پاس انتقال کیا – اللہ کی راہ پر آپ کے گامزن ہونے کی کہانی نہایت دلچسپ اور سبق آموز ہے- حضرت ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ بلخ کے بادشاہ تھے آپ کی قوت اور دولت کا یہ عالم تھا کہ جب آپ گھوڑے پر سوار ہو کر نکلتے تو سونے کی تلواریں اٹھاۓ چالیس آدمی اور سونے کے گرز اٹھاۓ چالیس آدمی آپ کے آگے پیچھے چلتے آپ کے پاس ہر وہ چیز تھی جس کی ایک انسان کو خواہش ہو سکتی ہے ایک عظیم سلطنت ،خوبصورت بیویاں ،بہت بڑا خزانہ اور اپنی رعایا کی اطاعت گزاری -لیکن ایک نامعلوم سی بے چینی ہمیشہ آپ کے دل کو چبھتی رہتی -آپ اپنے خالق کے نزدیک ہونا چاہتے تھے -آپ اللہ کے پسندیدہ لوگوں میں شامل ہونا چاہتے تھے- لیکن آپ کو معلوم نہ تھا کہ یہ مقصد کیسے حاصل کیا جائے-
ایک رات جب آپ اپنی شاہی خواب گاہ میں استراحت کر رہے تھے کہ آپ کو اوپر سے قدموں کی چاپ سنائی دی -چھت پر کو ی چل رہا تھا -آپ نے آواز دی- ” کون ہے ؟” ” میں ایک دوست ہو” جواب آیا –”تم چھت پر کیا کر رہے ہو ؟”حضرت ابراہیم رحمت اللہ علیہ نے پوچھا –”میرااونٹ کھو گیا ہے” اس آدمی نے جواب دیا- ” میں چھت پر اسے تلاش کر رہا ہوں “ابراہیم رحمت اللہ علیہ یہ جواب سن کر طیش میں آگئے –”بے وقوف کہیں کے ، کیا اونٹ کو چھت پر تلاش کیا جاتا ہے؟” آپ نے غصے میں چلا کر کہا – ” غا فل کہیں کے-” آواز نے جواب دیا-” کیا اللہ کو شاہی محل میں تلاش کیا جاتا ہے ؟”حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دل خوف سے بھر گیا – اس بارے میں آپ نے کبھی سوچا ہی نہ تھا –آپ اللہ کی تلاش میں تھے مگر آج تک اس کو غلط جگہوں پر ڈھونڈتے رہے تھے – اس رات وہ دوبارہ سو نہ سکے-
اگلے روز آپ نے دربار لگایا -سلطنت کے وزراء اپنے مقامات پر کھڑے تھے -غلام سر جھکائے قطار در قطار ایستادہ تھے-عا م ر عا یا کو آنے کی دعوت دی گئی تھی- اچانک ایک آ دمی دربار مین داخل ہوا- اس کی شکل و صورت ایسی ہیبت ناک تھی کہ کسی کو اس کا نام پوچھنے کی جرات نہ ہوئی -وہ تیزی سے آگے بڑھا اور تخت کے سامنے آکھڑا ہوا-“کیا چاہتے ہو تم ؟”ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ نے سخت لہجے میں دریافت کیا -“میں اس سراے میں قیام کا کرایا معلوم کرنے آیا ہوں-” آدمی نے جواب دیا -ابراہیم رحمت اللہ علیہ بھڑک اٹھے- ” یہ سراے نہیں ہے” وہ چلائے- ” یہ میرا محل ہے-” ” آپ سے پہلے اس محل کا مالک کون تھا ؟”اس آدمی نے دریافت کیا- ” میرے والد” ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ نے جواب دیا –”اور ان سے پہلے ”
“میرے دادا ”
“اور اس سے پہلے”
” ایک اور بادشاہ ”
“اور اس سے پہلے ”
“اس بادشاہ کا باپ ”
“وہ سب کس طرح کو رخصت ہوگئے ہیں؟” آدمی نے پوچھا –”وہ جا چکے ہیں وہ دنیا سے جاچکے ہیں –”ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا –”جس کسی کا بھی آپ نے نام لیا وہ ہمیشہ کے لئے یہاں نہیں رہا ایک آدمی گیا اور دوسرا آ گیا -آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ سرائے نہیں ہے کیونکہ سرائے پر بھی ایک آدمی جاتا ہے اور اس کی جگہ لینے دوسرا آدمی آجاتا ہے”ان چشم کشا الفاظ کی بازگشت بھی ختم نہ ہوئی تھی کہ وہ اجنبی دربار سے نکل گیا -پیچھے بلخ کے بادشاہ ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ رہ گے جواب اس دنیا میںاپنے مقام کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہو چکے تھے -ان کی روح میں اک آگ جل رہی تھی -انہیں احساس ہو گیا تھا کہ انہیں دنیا میں اس کام کے لیے نہیں بھیجا گیا تھا -یہ وسیع و عریض محل ، یہ سونے کی تلواریں اور گرز، یہ اطاعت گزار غلام اور وزیر ، یہ خوبصورت بیویاں اور عظیم دولت ،یہ سب محض توجہ ہٹانے کے سامان تھے – وہ ان میں خود کو گم کر بیٹھے تھے اور وہ وعدہ بھول گئے تھے جو انہوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے اس روز کیا تھا جب ان کی روح تخلیق کی گئی تھی- شاہ بلخ ابراہیم اعظم نے سب کچھ تیاگ دیااور ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ بن گے، عظیم صوفی اور معلم جن سے ہم سب واقف ہیں اور جن کی ہم سب عزت کرتے ہیں -آپ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے سب کچھ چھوڑ دیا آپ کی کہانی بتاتی ہے کہ ہمیں دنیاوی مشاغل اور مال و متاع میں پھنس کر اپنے وجود کا حقیقی مقصد فراموش نہیں کرنا چاہئے -اللہ نے ہرایک کو ایک خاص مقصد کے ساتھ بھیجا ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ اس کا پتہ چلا یں ا ور اپنی زندگی کا ہر لمحہ اسے پورا کرنے میں صرف کریں – یہی ایک راستہ ہے جس کے ذریعے ہم اللہ کے سامنے ایک مطمئن دل لے کر جا سکتے ہیں-