کسی گاوں مین ایک بوڑھی عورت رہتی تھی ، اس کا نام صوفیہ تھا، اس کی سب سے اچھی بات ہر بات مین اللہ کا شکر ادا کرنا تھا،کسی بھی بڑے سے بڑے نقصان پر بھی اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ یا اللہ تیرا شکر ہوتے تھے،
اکثر لوگ اس کی ایسی باتیں سن کر ہنس پڑتے تھےکے کملی اتنے بڑے نقصان پر بھی شکر ادا کر رہی ہے، صوفیہ کی پوتیاں اور نواسیان بھی اپنی نانی پہ ہنستی تھی،
صوفیہ جب کچھ نیا لیتی تو اس کا بھی اللہ کا بے حساب شکر ادا کرتی،
اگر وہ ایک تکیے کا کور بھی نیا بناتی تو اس پر بھی بار بار اللہ کا شکر ادا کرتی،
اس کی کوئی پوتی ہنستی تو اسے کہتی دفع ہووے یہ دیکھو یہ ننگا تکیہ تھا اب کپڑے پہن کے کتنا اچھا لگ رہا ہے،
اسی طرح ایک بار صوفیہ کی ایک نواسی جس کی شاری دوسرے گاوں مین ہوی ہوی تھی، موسم برسات مین اس لڑکی کے گھر پانی کا تیز ریلا ایا اور بہت کچھ بہا کے لے گیا
صوفیہ کو پتہ چلا تو وہ اپنی پوتی کے ساتھ اس نواسی کے گھر پہنچی،
وہ لڑکی رو رو کے پہلے ہی بری حالات مین تھی، نانی کو دیکھا تو رونے مین اور تیزی اگی، نانی کے گلے لگ کے رو رو کے بتانے لگی کے نانی یہ بھی بہہ گیا وہ بھی بہہ گیا،ہر بات کے جواب پے نانی کہتی یا اللہ تیرا شکر، یا اللہ تیرا شکر،
بار بار ان الفاظ پے نواسی کو غصہ اگیا، اس نے غصے مین کہا نانی میرا اتنا نقصان ہو گیا اور اپ ہر بات پے اللہ کا شکر ادا کر رہ ہے، مجھے لگ رہا ہے اپ کو بہت خوشی ہوی ہے،
نانی بولی دفع ہووے، مین تو اس بات کا شکر ادا کر رہی ہو کے اللہ نے تمہین اور تمہارے بچوں کو حفاظت سے رکھا،
” جان ہے تو جہان ہے”
اللہ کا شکر ادا کرو اتنے پانی سے تمہین یا تمہارے بچون کو کچھ ہو جاتا تو؟؟؟؟؟؟؟
اچھا لکھا ھے