ہجرت حبشہ و مدینہ اور امن پسندی کا ثبوت

In اسلام
January 21, 2021

نبوت کے پانچوں سال جب کفارمکہ نے مسلمانوں کو تنگ کرنے کی ہر حد پارکی تو وہاں اپنا مذہب و عقیدہ اور نظریہ کے مطابق زندگی گزارنا مشکل ہی نہیں بلکہ جان بچانا بھی مشکل ہو گیا تو نبی اکرمﷺ نے مسلمانوں کو قریبی عیسائی مُلک حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت فرمادی اور فرمایا

“وہاں کا بادشاہ رعایا پر ظلم نہیں کرتا”

چنانچہ نبی اکرمﷺ کی اجازت سے 16مردوں اور 4خواتین پر مشتمل ایک چھوٹا سا قافلہ حبشہ روانہ ہو گیا- اس قافلہ میں حضورﷺ کے داماد حضرت عثمان بن عفان اورآپ کی لخت جگر سیدہ رقیہ بھی تھی اس کے بعد 73 مردوں اور 17 عورتوں پر مشتمل مسلمانوں کا ایک بڑا قافلہ اپنا دین اور جان بچانے کی غرض سے اپنا گھر کاروبار اور اپنا مُلک چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر گیا-اس طرح اہل مدینہ کی طرف سے بیعت عقبہ کے بعد مدینہ منورہ میں اسلام اور اہل اسلام کے لیے حالات بہتر ہونے پر نبی رحمتﷺ نے پہلے اُن مسلمانوں کو جوابھی مکہ سے باہر بھی نہیں گئے تھے

لیکن ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے تھے،یثرب (مدینہ منورہ) جانے کی اجازت فرمادی ازخود بھی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی-یہ دونوں ہجرتیں خاص طور پر ہجرت مدینہ آپﷺ کی امن پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے – اب مسلمانوں میں آپﷺ کی چچا حضرت امیر حمزہ حضرت عمر بن خطاب جیسے رعب داد داب والے اور معاشرتی اثرورسوخ کے حامل لوگوں کی ایک معقول تعداد دائرہ اسلام میں داخل ہو چکی تھی

آپ چاہتے تو ہجرت والی رات اپنے گھر کے محاصرہ کے وقت حضرت حمزہ اور حضرت علی جیسے جان نثاروں اور دلیروں کے مقابلے میں کھڑا کر سکتے تھے- آپﷺ نے اپنا گھر، وطن اور مکہ مکرمہ جیسا پاکیزہ اور محبوب جیسا آبائی شہر خاموشی سے چھوڑنا قبول کیا لیکن مکہ مکرمہ کے پُرامن شہر اورپُرامن ماحول میں کیسی قسم کی بدامنی اور فتنہ وفساد کھڑا نہیں کیا-آپ نے مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد وہاں قیام امن کے لئے جو بھی بڑا اقدام اٹھایاتدبیر فرمائی وہ مدینہ منورہ کے اندر قیام پذیر مسلمانوں (مہاجرین وانصار)، یہودیوں،مختلف نسل کے لوگوں اور مختلف قبائل کے درمیان ایک تحریری معاہدہ طے پایا تھا

اس معاہدہ کا بنیادی مقصد باہمی حقوق کی پاسداری ، ایک دوسرے کی اعانت، آپس میں جنگ کی ممانعت، بیرانی حملہ کی صورت میں مشترکہ دفاع، ظالم آدمی سے ہر قسم کے تعاون سے گریزحتٰی کہ مدینہ منورہ ہی نہیں بلکہ اردگرد کے تمام علاقوں امن کا
قیام تھا