حضرت ہود علیہ السلام نے قوم عاد کی ہدایت کے لئے بہت کوشش کی لیکن ان لوگوں نے آپ علیہ السلام کی نصیحتوں کو قبول کرنے کی بجائے بت پرستی اختیار اور آپ علیہ السلام کو نبی ماننے سے انکار کیا عاد عرب کےعلاقے احقاف میں آباد تھے یہ علاقہ عمان اور حضرموت کے درمیان واقع ہے یہ لوگ بڑی قدوقامت کے مالک تھے بہت زیادہ طاقتور تھے کمزوروں پر ظلم و ستم کر تے تھے
ایک دن آپ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تم سے اس تبلیغ پر کوئی اجرت نہیں مانگتا میرا اجر میرا اللہ دے گا اے میری قوم اللہ تعالی سے معافی مانگو وہ تم پر بارش برسائے گا اور تمہیں مزید طاقتور بنا دے گا مجرم بن کر منہ نہ موڑو اللہ سےڈرو اور میری بات مانو مگر انہوں نے آپ کی ایک بات نہ مانی اور تکبر اورناشکری کرنے لگے یہ ظالم قوم’ قوم نوع کی طرح آپ کا مذاق اڑاتی رہی آخر ھود علیہ السلام نے اللہ سے مدد مانگی اللہ نے ان کی درخواست قبول فرمائیں قوم عاد کی نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالی نے پہلے اس پر بارشیں روک دی تمام فصل اور درخت جل گئے لوگ بارشوں کی أرزو کرنے ایک دن آسمان پر کالے بادل چھا گئے اور قوم عاد کے لوگ کہنے لگے کہ اس سے ہمارے لئے بارش برسے گی اور خوش ہونے لگے لیکن ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ یہ رحمت کے بادل نہیں بلکہ عذاب کے بادل ہے لیکن انہوں نے آپ کی نہ سنی اور خوش ہوتے رہے
کچھ دیر بعد تک ہوائیں چلنے لگیں جس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ گھوڑوں اور مویشیوں کو ایک دوسرے طرف لے جاتی ایک ہفتے تک یہ ہوائیں چلتی رہیں پھر ریت کا طوفان آیا جس نے ہر چیز کو تہس نہس کر دیا اور ان کے گھروں کے سوا کچھ نہیں بچا قرآن مجید میں ارشاد ہے ہم نے ایک مسلسل نحوست کے دن میں ان پر تیز آندھی والی ہوا چھوڑ دیں تھی جو لوگوں کو اس طرح اکھاڑ پھینک دیتی تھی جیسے کھجور کےاکھڑے ہوئے درخت کے تنے ہو اب کیا ان میں سے کوئی بچا ہوا نظر آتا ہے ۔اور ھود علیہ السلام کے ساتھ جو لوگ ایمان لائے تھے ان کو بچا لیا ۔