حضرت مجدد الف ثانی کی ملی خدمات

In عوام کی آواز
January 15, 2021

*** حضرت مجدد الف ثانی ***

شیخ احمد سرہندی ۱۵ جون ۱۵۶۴ء کو سر ہند کہ قصبے میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد محترم شیخ عبدالاحد ممتاز عالم دین صوفی تھے۔ آپ نے اپنی وفات ۱۶۲۶ء تک اپنی تمام عمر احیائے دین میں صرف کی۔بعض احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر ہزار سال کہ بعد تجدید دین کے لیے الله تعالیٰ ایک بلند پایہ مجدد مبعوث فرماتے رہیں گے۔ چنانچہ اس بارے میں علماء کا اتفاق ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد دوسرے ہزار سال کے مجدد شیخ احمد سرہندی ہیں۔

** حضرت مجدد الف ثانی کی ملی خدمات **

نمبر۱۔ ہندو جارحیت کا مقابلہ
اکبر مغل اعظم کے عہد میں ہندومت کے احیاء کی تحریک زوروں پر تھی ۔ ہندو راجے اکبر کے مرد شمشیر زن خیال کیے جاتے تھے اور ہندو رانیاں شاہی محلات کے اندر اکبر کے دل و دماغ پر سوار تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ ہندومت کی احیاء کی تحریک کو دربار اکبری کے ہندو امرا کی حمایت حاصل تھی۔ حضرت مجدد الف ثانی اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں کہ اکبر کے دور میں ہندو اتنے دلیر ہوگے تھے کہ متھرا کے ایک برہمن نے مسجد کی جگہ مندر تعمیر کر لیا اور رسولﷺ کی شان میں گستاخی کی۔ صدرالصدور نے اسے سزائے موت دی تو دربار اکبری میں ہنگامہ ہوگیا۔ تھانیسر میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ وہاں کے ہندووں نے مسجد گرا کر وہاں مندر تعمیر کر لیا۔ حضرت مجدد الف ثانی نے اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام علماء اور امراء میں احساس بیدار کیا۔

نمبر۲۔ توحید خالص کا تصور 
ہندو کے احیاء اور اکبر کے دین الہی نے مسلمانوں پر جو اثرات ڈالے ان میں مسلمان صوفیا کا ” وحدت ادیان ” کا تصور تھا۔ تمام ادیان کی اصل ایک ہے اور رام و رحیم ایک ہی ہستی کے دو نام ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی نے اس باطل نظریہ پر کاری ضرب لگائی۔ آپ نے فرمایا کے رام اور کرشن اسی قسم کی دو شخصیتیں ہیں جن کی ہندو پرستش کرتے ہیں۔ رام سیتا کے شوہر تھے۔ جب وہ اپنی بیوی کی حفاظت نہیں کر سکے تھے تو وہ بےچارے دوسروں کی کیا مدد کریں گے۔ رام کی پیدائش سے قبل بھی تو رحمان موجود تھا۔ رحیم ہمیشہ سے ہے ، اور ہمیشہ رہے گا۔ اس لیے نہ رحیم ،رام ہے اور نہ سب اد یان کی اصل ایک ہے۔

نمبر۳۔ اکبر کی مذہبی پالیسی 
جلال الدین اکبر کورا ان پڑھ تھا۔ وہ ابوالفضل اور فیضی کی صحبت سے بے انتہامتاثر ہوا اور ایک نئے مذہب “دین الہی” کا اجرا کیا۔ اس نے ہندوستان کو دارالسلام بنانے کی بجائے ایک لادینی ریاست بنانے کی کوشش کی ۔ اکبر بادشاہ بھول گیا کہ اگر اس کی پشت پر مسلمانوں کی عصبیت موجود نہ ہو تو ہندو اسے دیوتا اور اوتار ماننے کی بجائے لٹیرا اور غاصب قرار دیں۔

نمبر۴۔ بدعات کی ممانعت 
الله تعالیٰ نے دین کو رسولﷺ پر مکمل کر دیا ہے ۔ اسی طرح شریعت بھی قرآن و سنت کے مطابق مکمل ہوچکی ہے۔ اکبر بادشاہ کے دور میں اسلام میں بہت سی ہندوانہ رسم و رواج اور عقائد شامل ہوگے ۔ اس طرح اسلام اور ہندومت میں تمیز کرنا مشکل ہوگیا۔ ہر نئی بات جس کی اصل دین سے ثابت نہ ہو بدعت اور گمراہی ہے ۔ حضرت مجدد الف ثانی نے بدعات کا شدت سے رد فرمایا۔

نمبر۵۔ دو قومی نظریہ 
حضرت مجدد الف ثانی نے ان تمام نظریات اور فلسفوں کو رد کرتے ہوئے اسلام و کفر، توحید و شرک، بت پرستی اور خدا پرستی میں فرق واضح کیا اور دین اسلام کو ہندومت میں ضم ہونے سے بچایا ۔ آپ کی کوششوں سے مسلمان اپنی جداگانہ تشخص برقرار رکھنے اور ہندی قومیت میں جذب ہونے سے بچے۔ اس طرح آپ نے دو قومی نظریہ کی تبلیغ کی اور مسلمانوں کی الگ شناخت کو قائم رکھا۔ اسی بناء پر مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا اور برعظیم میں ایک الگ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگے۔

آپ کی ملی خدمات، تجدید دین اور احیائے اسلام کی بدولت آپ کو دوسرے ہزار سال کا مجدد کہا جاتا ہے۔

/ Published posts: 7

I am Student of Bsc & I fond of Writing

Facebook