آج کل کے دور جدید میں، جہاں ڈیجیٹل چیزوں کی ویلیو انسانی زندگی سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے اور جس قسم کی خرافات اور فضولیات کو ہم اور ہمارے بچے بہت ہی شوق سے پڑھنے اور دیکھنے لگ گئے ہیں اللہ ہی ہمارے حال پہ رحم کرے. خیر میں بات کو گھمانے کی بجائے سیدھے مدعے پہ لاتا ہوں. میرا اعشارہ آج کل ٹیلی ویژن پہ نشر ہونے والے ڈراموں کی طرف ہے. جنہوں نے اخلاقی قدروں کو تو ایک صندوق میں ڈال کے برمودہ ٹرائی اینگل میں پھینک دیا ہے. اس قسم کا کلچر اور تہزیب دکھائی جا رہی ہے کہ خود تہزیب بھی بول پڑی کہ لکھنے والے بھائی کچھ تو میرے نام کی لاج رکھ لیتے. لیکن ہمارے ڈرامہ رائٹرز کہاں سن سکتے ہیں. کسی ڈرامے میں دیور بھابھی اور کسی میں سالی اور بہنوئی کا لو سین دکھایا جا رہا ہے. بھئی ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ ڈرامہ نہ لکھیں بس اتنا سوچ کہ لکھیں کہ آپ کے لکھے ہوئے ڈرامے ہماری گھریلو عورتیں ہی نہیں دیکھتیں بلکہ چھوٹے بچے، بوڑھے ڑیٹائر افراد، مرد حضرات اور خاص کر دکانوں والے مرد حضرات کیونکہ آج کل زیادہ تر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگوں نے اپنی دکانوں پہ چھوٹے سائز کے ٹی وی رکھے ہوئے ہیں، یی سب دیکھتے ہیں. اب آپ ہی بتائیں کہ اتنی ساری عوام اس قسم کہ بیحدہ ڈرامے دیکھے گی تو کچھ لوگ تو برا بھلا کہیں گے اور کچھ نظر انداز کر دیں گے. لیکن کہیں نا کہیں سب کہ دماغ میں کہانی بیٹھ جائے گی. اب اپنے خاندان میں جب ان رشتوں کو دیکھیں گے تو تھوڑی دیر کہ لیے دماغ یہاں سے وہاں تو ضرور جائے گا. ان پاک اور مہزب رشتوں میں غلط فہمیاں ایسے ہی نہیں جنم لیتی کہیں نہ کہیں سے پوری کہانی دماغ میں گردش کر رہی ہوتی ہے. کچھ عورتیں اور مرد حضرات اعتبار کی کمی کی وجہ سے بیچارے شرافت سے کام کر رہے شوہر پہ شک کرنا شروع کر دیتیں ہیں اور کچھ اپنی پاک بیوی پہ تہمت اور بہتان لگانا شروع کر دیتے ہیں. اور اندر سے جب کریدو تو پتہ چلتا ہے جی کہ فلاں چینل پہ فلاں ڈرامہ لگتا تھا اس میں تو ایسا ہوا تھا اور وہاں کھلتی ہے ساری کہانی.
اب آپ ہی بتائیں قصور کس کا ہے. ان کا تو ہے ہی جو ڈراموں کو سر پہ سوار کر لیتے ہیں لیکن تھوڑا بہت تو آپ کا بھی ہے کیونکہ یہ ڈرامہ لکھا اور دکھایا تو آپ ہی کی جانب سے ہے نا.
اب آگے سنئیے. ابھی کچھ دن پہلے ہی میں جا رہا تھا. تو گلی میں دو بچے جن کی عمر تقریباً نو یا دس سال ہو گی وہ بھی جا رہے تھے . پہلے انہوں نے ایک ایسے ڈرامے کی کہانی سنائی جس میں ایک سالی اپنے بہنوئی کے ساتھ شادی کی سازشیں کر رہی ہوتی ہے.ابھی پہلے والے کی بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ دوسے محترم جھٹ سے بولے “یار سالی سے یادآیا میرے بھائی کی جو سب سے چھوٹی سالی ہے نا یار بہت ہی پیاری ہے.” ابھی اتنا بولا ہی تھا کہ اس ناچیز سے بات ہضم نہ ہوئی اور دونوں کو زور سے ڈانٹ کے بھگا دیا. اب خود سوچ میں پڑھ گیا کہ آخر اس میں کس کی غلطی ہے. جہاں اتنی سخت پڑھائی کہ بعد اگر بچے بیٹھیں گے تو فارغ اوقات میں ٹیلی ویژن یا موبائل کا ہی سہارا لیں گے اور موبائل نہ ملنے کی صورت میں وہ ٹیلی ویژن کی طرف ہی بڑھیں گے. یا گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر بھی اگر دیکھیں گے تو کیا سیکھیں گے.
میری بس اتنی گزارش ہے کہ ڈرامیں ضرور بنائیں لیکن ان میں رشتوں کو نیلام کرنے والی، ان کا تقدس اور ادب ختم کرنے والی ایسی کوئی چیز نہ دکھائی جائے. جو ہماری نئی نسل اپنا کلچر اور تہذیب سمجھ کہ اپنا لے. جبکہ ہیمارے کلچر اور مزہب میں بھی ہر رشتے کا ایک الگ رتبہ اور مقام ہے. اور ہر رشتے کے ہی کچھ حقوق ہیں جو ہمیں ہمارے پیارے نبی اکرم (صل للہ و عليہ والہ وسلم) نے ہمیں سکھائے ہیں. ہمیں اور ہمادی نسلوں کو اسی تہزیب کی ضرورت ہے اور کسی نئی چیز کی ضرورت نہیں.