اسلام علمائے کرام کی تکریم کی تاکید کرتا ہے اور یہ سچ بھی ہے کیوں علمائے کرام کے ذریعے ہی اسلام ہم تک پہنچا ہے اور علمائے کرام کی اہمیت اس حدیث پاک سے بھی واضح ہوتی ہے کہ ایک عالم کی موت ایک جہان کی موت ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں علمائے کرام کو خاص عزت و اکرام سے نوازا جاتا ہے کیوں کہ یہ اخلاقیات کا تقاضا ہے اسلامی تعلیمات کا محور و مرکز احسن اخلاق ہی ہے۔
مگردوسری جانب یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اگر ایک جاہل آدمی غلطی کرے تو اس کی سزا اس ایک کو ہی ملے گی مگر جب ایک عالم اور پڑھا لکھا انسان کوتاہی کرے گا تو اس کا خمیازہ پورے معاشرے کو بھگتنا پڑتا ہے کیوں کہ اس عالم و فاضل کی بات اور کردار پورے معاشرے کیلئے ایک مثال اور سبق ہوتی ہے اس کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ اور اس کے جسم سے سرانجام دیا جانیوالا ایک ایک فعل سب کو متاثر کرتا ہے یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک عالم اپنے اردگرد موجود افراد اور اس معاشرے کیلئے رول ماڈل ہونا چاہئے۔
مگر جب یہ رول ماڈل ہی مسلسل کوتاہی پر کوتاہی کرتا چلا جائے تو اس کی سرکوبی بھی معاشرے کی ذمہ داری ہونی چاہئے ورنہ یہ ناسور سب کو لے ڈوبے گا۔ مفتی عبدالقوی بھی ایک ایسے ہی انسان ہیں جن کے نام کیساتھ اگرچہ مفتی کا لفظ لگتا ہے مگر گزشتہ کچھ عرصہ سے ان کے جو کرتوت سامنے آ رہے ہیں اس کی سزا محض ایک تھپڑ نہیں اس سے بھی زیادہ ہونی چاہئے۔
ہم یہ بات باآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام ہمیں فحاشی و بے حیائی سے منع کرتا ہے، اسلام ہمیں پردے کی تاکید کرتا ہے، اسلام ہمیں نامحرموں کیساتھ انتہائی احتیاط اور پردے میں گفتگو کا حکم دیتا ہے وغیرہ وغیرہ مگر یہ موصوف گزشتہ چند ماہ سے مسلسل اسلام کے اس اہم ترین حکم کی خلاف ورزی اور گناہ کے مرتکب دکھائی دے رہے ہیں ان کی متعدد وڈیوز سامنے آ چکی ہیں اور تازہ ترین وڈیو میں انہیں پڑنے والے زناٹے دار تھپڑ کی ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ عبدالقوی نامی نام نہاد مفتی کی سرکوبی سب سے پہلے اس کے پیروکاروں کو کرنی چاہئے اور اس کے بعد تمام مکتبہ فکر کو ان جیسے نام نہاد اور مفت کے مفتیوں کا بائیکاٹ کرنا چاہئے ورنہ ایسے لوگ بار بار اسلامی تعلیمات کی بدنامی کا باعث بنتے رہیں گے۔