ماں
ماں لفظ شیرنی کی طرح میٹھا اور دل کی گہرائیوں سے بولے جانے والا لفظ ہی نہیں بلکہ اپنے اندر کل کائنات سَموئے ہوئےہے۔ کہتے ہیں کہ جب بچہ کسی تکلیف میں ہوتا ہےتو اُس کے منہ سے
بے ساختہ نکلتا ہےماں۔ زندگی کی کڑی دھوپ میں ممتا ایک درخت کی چھاؤں کی طرح ہوتی ہے۔ ماں جیسی ہستی دنیا میں کوئی نہیں یہ اُن بچوں سے پوچھیں جن کی مائیں اب اس دنیا میں
موجود نہیں۔
وہ لوگ بہت تنہا رہ جاتے ہیں جنکےسروں پہ ماں کا سایہ نہیں ہوتا۔ گھر میں اگرسارے افراد موجودہوں اور ما ں نہ ہو تو گھر بلکل ویرانہ سا لگتا ہے۔ ماں کی ڈانٹ سُننے کا بھی الگ ہی لطف
ہوتا ہے۔
اس دنیا میں ماں کا کوئی نعم البدل نہ ہے نہ ہی کبھی ہوگا۔ ماں بچوں کو تسبیح کے دانوں کی طرح جوڑے رکھتی ہے۔ اگر ماں نہ ہو تو یہ تسبیح ٹوٹ جاتی ہے اور بچے اس کے دانوں کی طرح بِکھر
جاتے ہیں۔
کچھ بد قسمت لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں اس دنیا میں جو ماں کے ہوتے ہوئے بھی اُن کی قدر نہیں کرتے اور اُنھیں اولڈہوم وغیرہ جیسی جگہوں پر چھوڑآتے ہیں اورخود اپنا سکون کھو بیٹھتے ہیں۔
اللہ ہر ایک پہ ماں کا سایہ سلامت رکھے کیونکہ ماں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔
خود کو ہر تکلیف پریشانی میں ڈال کر اولاد کو سکون دینے والی ماں ہی ہوتی ہے۔
بوڑھاپےمیں ماں کو سب سے زیادہ بچوں کی محبت و شفقت کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے آپ سب سے التجا ہے اپنی ماوؤں کا خاص خیال رکھیں۔ آج کل کےجدید دورمیں جہاں ہر کوئی مصروف ہے اپنی اپنی مشینی زندگی میں ہمیں رشتوں کو وقت دینے کے لیے بھی ٖفرصت نہیں وہاں ہماری بوڑھی ماوؤں کی نظریں بچوں کے لیے آج بھی دو میٹھے بول کو ترستی ہیں۔
دنیا میں جوشخص ماں کی خدمت کرتا ہے وہی آخرت میں سکون پاتا ہے۔ ماں شمع کی مانند ہوتی ہے جو خود جل کہ بچوں کو روشنی دیتی ہے۔