Skip to content

منفی رویے اور آپ کی شخصیت

انسان جب شعور کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اپنے ارد گرد کھینچے رشتوں ،اور معاشرے کے اِس حصار میں اُسے بہت سارے مسائل اور تلخ رویّوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے
ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے اُسے سراہا جائے اگر وہ کوئی کام کرے تو اس کی پذیرائی کی جائے ،اُسکی نیکی کا  جواب نیکی سے دیا جائے ،وہ جس انداز سے چیزوں کو سوچتا ہے دوسرے بھی اسی انداز سے دیکھیں اور سوچیں
اُس کے ہر نقطہ نظر سے لوگ اتفاق کریں ،جب اُس کو ہر چیز اُس کے برعکس نظر آتی ہے جو وہ چاہتا ہے تو دلبرداشتہ ہو کر خود کو مختلف ذہنی ازیتوں میں مبتلاء کر لیتا ہے
وہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی میں زہر گھول لیتا ہے اس دنیا میں سب کچھ انسان کی خواہش کے مطابق نہیں ہوتا ،انسان اپنے بنائے گئے ذہنی معیارات قائم کر کے زندگی نہیں گزار سکتا ،اُسے اس دُنیا کے تلخ حقائق کا رویوں کا سامنا کر کے زندگی گزارنی پڑی ہے
ایک دفعہ حضرت موسٰی علیہ السلام اپنی قوم کی باتوں سے دلبرداشتہ ہو گئے اور اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوئے تو کہا اے میرے پروردگار میں اپنی قوم کی باتوں سے بُہت پریشان ہوں ،یہ میرے متلعق طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں
جو مجھے پریشان کرتی ہیں میرا ان سے پیچھا چھڑائیے
تُو اللہ ربّ العزّت نے فرمایا اے موسٰی علیہ السلام یہ معیار تو میں نے اپنے لیے بھی نہیں بنایا ،کیا تم نہیں دیکھتے میں ان کو آسمان سے روزی دیتا ہوں ،ان کو اولاد دیتا ہوں ان کے مال مویشیوں میں برکت دیتا ہوں لیکن پھر بھی یہ لوگ زمین میں میری اولاد بناتے ہیں ،میرے بارے میں طرح طرح کے گمان کرتے ہیں ،میری ناشکری کرتے ہیں
بس تم اُن کی باتوں سے دلبرداشتہ مت ہو بس خیر کے کام کیے جاؤ
تو بس انسان کو یہ ہی چاہیئے کہ وہ کسی کی تلخ باتوں کو منفی رویوں کو نظر انداز کر کے اچھائی اور خیر کے کاموں میں لگا رہے 
سب سے بڑی ذہنی آسودگی اسی جذبے میں ہے سب سے زیادہ سکون اسی رویے میں ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *