کسی بھی معاشرے میں زندگی پر اثراداز ہونے والے عوامل کردار اور ماحول کی نشاندہی کرتے ہیں۔یہ عوامل افراد کے کردار کاعکس ہوتے ہیں۔اگر عومل کو بیرونی قوت ملتی ہے تو یہ بھی پروان چھڑتے ہیں ورنہ زمین بھوس ہو جاتے ہیں۔اب یہ چند
عوامل ہم جس طرح استعمال کرتے ہیں ان کا اسی طرح ایکشن رہتا ہے مثلا۔
جھوٹ۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بھی ہم جھوٹ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو ماحول میں جھوٹ سرائیت کر جاتا اور اس زہر سے ہم متاثر ہوتے ہیں۔کیونکہ یہ ایک گناہ ہے اور گناہ کے اثر سے ماحول گندہ ہی رہتا ہے ۔اب اس کا حل یہ ہے کہ جھوٹ کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
خیانت۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح خیانت سے بھی پورہ معاشرہ گناہ کے لپیٹ میں آتا ہے اور ہمارے کردار پر داغ لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔جب ہم اپنے مسلمان بھائی سے خیانت کرنے لگتے ہیں تو گو یا ہم اپنا اعتماد کھو بیھٹے ہیں۔اور معاشرے میں اکیلے رہہہ جاتے ہیں۔خیانت جس طرح مال میں گناہ ہے اسی طرح کسی مجلس کی بات باہر کرنا بھی خیانت ہے،ڈیوٹی میں کام چوری بھی خیانت اور ذمہ داری نہ نبھانا بھی خیانت کا حصہ ہے۔اگر ہم معاملات کو درست کریں اور خیانت جیسے جرم کی سرکوبھی کریں تو ماحول اور ہمارا کردار مورد الزام نہ ٹھہرے۔
چشم پوشی۔۔۔۔۔۔۔
انتہائی خطرناک اور زہر آلودہ کام کسی کی آبرو ریزی ہے ۔جب ہم معاشرے میں لوگوں کے عیوب اچھالنا شروع کرتے ہیں تو گویا ہم انہیں اپنی عزت کو تار تار کرنے کی اجازت دیتے ہیں ۔جس سے نا صرف معاشرہ بگڑتا ہے بلکہ ہمارا کردار بھی ہرکسی کے نشانے پر ہوتا ہے اور ہم بد نام ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
جرائم کا سد باب۔۔۔۔۔۔۔
کسی بھی ماحول پر جرائم گہرے اثرات چھوڑتے ہیں ۔جب تک ان جرائم کا سد باب نہ کیا جائے۔ماحول کو جرائم سے پاک کرنا افراد کی ذمہ داری ہے اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو یہ جرائم ہمارے گھروں میں داخل ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور ہمارے کردار کی صورت میں معاشرے کا حصہ بن جاتے ہیں۔
احترام انسانیت کا پیغام۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام ایک آفاقی مذھب ہے جو سب سے پہلے انسانیت کے احترام کا درس دیتا ہے۔اگر ایک ماحول میں انسانیت سوز عوامل پائے جائے تو اسلام ان عوامل کی بیخ کنی کرتا ہے اور ان کی طرف جانے والے تمام راستوں کو بند کرتا ہے۔اگر کوئی بیمار ہے تو اسلام اس کی مدد کا درس دیتا ہے،اگر بوڑھا ہے تو اسلام سہارا بنتا ہے،اگر بیواہ ہے تو اسلام بے بسوں کی مدد کی تلقین کرتا ہے۔یہ صرف انسان کو انسانیت سکھانے کا لازوال داستاں ہے۔جب مذھب کی بات آتی ہے تو اسلام والدین،بڑوں،رشتہ داروں ،پڑوسیوں،علماء اور چھوٹوں کے ساتھ بھی حسن خلق کا اعلان کرتا ہے ۔انہی باتوں سے ماحول میں خوشیاں بکھرنے لگتی ہیں اور ہمارا کردار ایک مثال بننا شروع ہو جاتا ہے۔
دینی تعلیم کی تبلیغ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب سے اہم اور ضروری پہلو ہے کہ ہم دین سکھانے اور بتانے والے بن جائے۔جب بھی معاشرے سے دینی تعلیم اٹھنا شروع ہوجاتا ہے وہاں کے ماحول میں جہالت عام ہوجاتی ہے،اورلوگوں کا کردار مشکوک ہوجاتا ہے۔کیونکہ ماحول افراد کے کردار سے بنتا ہے جب کردار میں دین نہیں ہوتا تو ماحول بھی صاف نہیں رہتا۔علماء نے ذکر فرمایا ہیں کہ جب گھر میں دین کی تعلیم نہیں دی جاتے تو ان گھروں میں جانوروں کے صفات انسانوں میں پیدا ہو جاتے ہیں جس سے ایک ہنستا بستا گھر ویران ہوجاتا اور اس گھر کے باشندے انسان نما حیوان کی شکل میں نظر آتے ہیں۔
اگر ہم اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تو کوئی بعید نہیں کہ زمانہ ہماری مثالیں دیں اور ہماری آنے والی نسلیں بہترین ماحول اور ہمارے کردار پر ہمیں خراج تحسین پیش کریں۔
شاہ حسین سواتی کے قلم سے۔