Skip to content

خون کے آنسو

پاکستان بننے کا ایک ہی مقصد تھا کہ ایک ایسی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں تمام مسلمان اپنی زندگی آزادی کے ساتھ گزاری اور اپنی عبادات کو ادا کریں۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب بھی اپنی عبادات و رسومات کو آزادی کے ساتھ ادا کریں۔ پاکستان بن گیا تو تفرقات نے بھی جنم لیا۔ ہم نے آج تک تین چار جنگیں لڑیں ہیں مگر حاصل وصول کچھ بھی نہیں ہوا۔ ہماری کامیابی دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ضرور ہے جس کے لیے پاکستانی فوج نے لازوال قربانیاں دیں، سلام ہے پاک فوج کو۔ مگر اس ریاست میں اور جب سے ہوش سنبھالا ہے ، میرا دل تین بار خون کے آنسو رویا ہے اور بہت ہی زیادہ غم و تکلیف ہوئی ہے۔

پہلی بار جب، ہم سکول میں تھے اور دہشت گردوں کے حملے کی خبریں ہر دوسرے دن سننے کو ملتی۔ خوف و حراس پھیلا ہوا تھا، اور ہم دسمبر کے ان دنوں میں سکول میں تھے۔ پھر ایک دن خبر آئی کے آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں نے حملہ کردیا ہے۔ شہید بچوں کی خبر سنی اور جب ان معصوم بچوں کی تصاویر دیکھیں تو دل خون کے آنسوں رونے لگا۔ ان معصوم بچوں کا آخر کیا قصور تھا؟ ان کو ذرا ترس نا آیا۔ ملک بھر میں سوگ تاری ہوگیا گویا ہر آنکھ اشک بار تھی اور پوری قوم ایک ساتھ کھڑی ہوگی۔ اس یک جہتی نے ملک کو متحد و مضبوط بنایا اور پاکستانی فوج نے دہشت گردوں کا شکست دی۔ آج بھی ان شہدا کو یاد کیا جاتا ہے اور ان کے لیے اس دن کو بھی منایا جاتا ہے۔

دوسری بار، ہم کالج میں تھے تو نیوز سنی کہ ایک کم سن لڑکی کے ساتھ کسی درندے نے زیادتی کی ہے، دل خون کے آنسو رونے لگا۔ اس لڑکی کا نام زینب تھا جس کو بے دردی کے ساتھ مار دیا گیا۔ آخر اس معصوم کا کیا قصور تھا۔ اس پر پوری قوم نے آواز اٹھائی خاص طور پر ہمارے میڈیا چینلز نے اور اس کے قاتل کو گرفتار کیا گیا۔ کیا ہم واقعی میں مسلمان ہیں؟ مسلمان تو ایسی حرکت کبھی نہیں کرے گا۔ اس کے بعد کئی اور بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی بھی ہوئی، حکومت نے اس کے بعد کچھ اچھے اقدامات بھی کیے تاہم یہ کیسز آج بھی ہورہے ہیں۔ دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے جب ان واقعات کی خبریں ملتی ہیں۔

تیسری بار، اب جب بلوچستان کی ہزارہ برادری کے ساتھ ظلم ہوا اور یہ اب نہیں دس سال سے ایسا ہی ہے، دل خون کے آنسو رو رہا ہے اور دم تحریر الفاظ نہیں ہیں کہ کچھ لکھ سکوں۔ اتنی سردی میں بچے، بوڑھے،جوان اور عورتیں ان دس لوگوں کی لاشیں لے کر چار دن سے بیٹھے ہوئے ہیں جن کو قتل کیا گیا۔ ان کا مطالبہ اب انصاف تک محدود نہیں بلکہ انھوں نے کہا ہے کہ حکمران وقت خود آئیں۔ اللہ پاک ان کو صبر عطا فرمائیں۔ ہم سب ان کے ساتھ ہیں اور ان کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے۔ اللہ پاک ان کا ہامی و ناصر ہو اور ان کے لیے آسانیاں عطا فرمائے۔

آخر میں بس یہی کہنا ہے کہ ہم بطور ایک قوم مل جل کر ہی ان تمام مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔ اتحاد میں بڑی طاقت ہے، اس لیے ان تفرقات سے بچ کر اس معاشرے کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔ ہر انسان کو آزادی دی جائے تاکہ وہ ملک و قوم کی خاطر کچھ کر سکے۔ اللہ پاک اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم اس جہاں میں پر سکون زندگی گزاریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *