یہاں سال نو کا آغاز ہوتا ہے خون سے یہاں محفوظ نہیں بندہ بشر۔ بلوچستان کے علاقے مچھ میں سفاکانہ طور پر قتل ہونے والے ہزراہ برادری کے لواحقین کئی دنوں سے دہرنا دیے بیٹھے ہیں۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ ہزارہ کمیونٹی کو وہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ بم دھماکے ہو یا ٹارگٹ کلنک اس مخصوص کمیونٹی نے کئی واقعات میں اپنے لخت جگر قربان کئے۔
نہ جانے کب تک یہ ظلم سہتے رہینگے۔ کبھی سنی شعہ فسادات تو کبھی ان کے مسلک کو بنیاد بنا کر نشانہ بنایا جاتا رہا۔ آخر انسانیت کی کیا تعریف؟جوکتاب الہی میں ذکر ہے، گویا ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ ہے کوئی عادل حکمران وقت جو محسوس کرے اس شہر نافرساں کے باسیوں کی فریاد؟ کوئی تو خبر لیں اس کربلا کی۔
شدید سردی میں میتوں کو سامنے رکھ کریا علی اور یا حسین کی ماتھمی آوازیں انصاف مانگ رہی۔جب انصاف نہیں ہوگا تو لوگ نکلیں گے سڑکوں پر جب تحافظ دینے وا لے ہوجائے ناکام تو آوازیں اٹھیں گی۔
کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر دہرنا شرکاء نے کا مطالبہ ہے کہ صوبائی حکومت گھر چلے یا وزیر اعظم ہمارے پاس آئے ہماری فریاد سنے۔ لیکن یہ انکی بھول ہے۔ وہ نیوزلینڈ کے شہری نہیں ہیں جہاں ایک کافر ملک کی کافر وزیر اعظم Jacinda Ardern مسلمانوں کے ساتھ انکے غم میں شریک ہوکر انہیں ایک جسم کے مانند ہونے کا حدیث مبارکہ سے یقین دلاتی ہے۔ لیکن ایک مسلمان ملک کا مسلمان وزیر اعظم مظلم مسلمانوں کو اپنے نمائندے بھیجنا پسند کرتے
ہیں۔وقت جب ملک کے پورانے چور لٹیروں کا تھا تو رات کی تاریکی میں کوئٹہ پہنچے اور گورنر راج نافظ کیا لیکن ملک کے صادق اور امین لیڈر سوائے گورنر راج کے باقی سارے مطالبات پسند کرتے ہیں۔
کیا آپ عوام کے وزیر اعظم نہیں؟ کیا آپ کی حکومت عوام کی حکومت نہیں؟ یا پھر آپ کی حکومت عوام کے لیے نہیں۔ آپ کس کے وزیر اعظم ہیں؟۔ یہ لوگ پوچھ رہیے ہیں یہ مچھ میں ذبح شدہ کے لواحقین پوچھ رہے ہیں۔