Home > Articles posted by Kakar
FEATURE
on Jan 6, 2021

یہاں سال نو کا آغاز ہوتا ہے خون سے یہاں محفوظ نہیں بندہ بشر۔ بلوچستان کے علاقے مچھ میں سفاکانہ طور پر قتل ہونے والے ہزراہ برادری کے لواحقین کئی دنوں سے دہرنا دیے بیٹھے ہیں۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ ہزارہ کمیونٹی کو وہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ بم دھماکے ہو یا ٹارگٹ کلنک اس مخصوص کمیونٹی نے کئی واقعات میں اپنے لخت جگر قربان کئے۔ نہ جانے کب تک یہ ظلم سہتے رہینگے۔ کبھی سنی شعہ فسادات تو کبھی ان کے مسلک کو بنیاد بنا کر نشانہ بنایا جاتا رہا۔ آخر انسانیت کی کیا تعریف؟جوکتاب الہی میں ذکر ہے، گویا ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ ہے کوئی عادل حکمران وقت جو محسوس کرے اس شہر نافرساں کے باسیوں کی فریاد؟ کوئی تو خبر لیں اس کربلا کی۔ شدید سردی میں میتوں کو سامنے رکھ کریا علی اور یا حسین کی ماتھمی آوازیں انصاف مانگ رہی۔جب انصاف نہیں ہوگا تو لوگ نکلیں گے سڑکوں پر جب تحافظ دینے وا لے ہوجائے ناکام تو آوازیں اٹھیں گی۔ کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر دہرنا شرکاء نے کا مطالبہ ہے کہ صوبائی حکومت گھر چلے یا وزیر اعظم ہمارے پاس آئے ہماری فریاد سنے۔ لیکن یہ انکی بھول ہے۔ وہ نیوزلینڈ کے شہری نہیں ہیں جہاں ایک کافر ملک کی کافر وزیر اعظم Jacinda Ardern مسلمانوں کے ساتھ انکے غم میں شریک ہوکر انہیں ایک جسم کے مانند ہونے کا حدیث مبارکہ سے یقین دلاتی ہے۔ لیکن ایک مسلمان ملک کا مسلمان وزیر اعظم مظلم مسلمانوں کو اپنے نمائندے بھیجنا پسند کرتے ہیں۔وقت جب ملک کے پورانے چور لٹیروں کا تھا تو رات کی تاریکی میں کوئٹہ پہنچے اور گورنر راج نافظ کیا لیکن ملک کے صادق اور امین لیڈر سوائے گورنر راج کے باقی سارے مطالبات پسند کرتے ہیں۔ کیا آپ عوام کے وزیر اعظم نہیں؟ کیا آپ کی حکومت عوام کی حکومت نہیں؟ یا پھر آپ کی حکومت عوام کے لیے نہیں۔ آپ کس کے وزیر اعظم ہیں؟۔ یہ لوگ پوچھ رہیے ہیں یہ مچھ میں ذبح شدہ کے لواحقین پوچھ رہے ہیں۔

FEATURE
on Jan 5, 2021

ہمیں لاشیں واپس کرو ورنہ ہم خود کشی کرینگے۔ یہ الفاظ بلوچستان کے ہزارہ برادری کے لواحقین کے نہیں کیونکہ ان کو لاشیں تو ملیں لیکن گردنیں کٹی ہوئیں۔ یہ داستاں اتھر وانی کے ہیں جسے وادی سرنگر میں بے دردی سے شہید کیا گیا۔ یہ مظالم دنیا بھر کے انسانی حقوق کے عالم بردار دیکھ رہے ہیں لیکن خاموش ہیں۔ جنوری کے 5 تاریخ کو دنیا بھر میں کشمیر کی خود ارادیت اور کشمیریوں سے ہمدردی اور یک جہتی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ایک طرف ہندوستانی مسلح افواج جو سال بھر معصوم کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلتی ہیں دوسری جانب ہمارے سیاستدان ہیں جن کو یوم کشمیر کے دن ہی کشمیریوں کا خیال آتا ہے۔ ویسے تو روز اول سے ہی کشمیری ظلم و ستم کے سائے تلے رہ رہے ہیں لیکن کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کو پانچ سو انیس دن بیت گئے۔ کشمیریوں کے اوپر اگر خدا ہے تو نیچے پاکستان کی طرف آنکھیں ترس گئی۔ لیکن پاکستان کی کشمیر پالیسی مسلسل طور پر غیر موثر ثابت ہورہی ہے کیونکہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ دوطرفہ معاملات کی بنیاد پر حل کرنے میں الجھا ہوا ہے۔ موجودہ حکومت نے الیکشن سے پہلے کشمیر پالیسی کو ترجیح دی نہ ہی اپوزیشن جماعتوں نے کشمیر کے حوالے سے اپنے الیکش منشور میں کوئی لائے عامہ اختیار کیا۔ 5 اگست 2019 کو جب ہندوستان نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو ختم کردیا جس کے تحت کشمیر کو خاص حیثیت حاصل تھی تب ہی وزیر اعظم صاحب نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ہندوستان کے اس نا روا عمل کو اقوام متحدہ کے سکیورٹی کونسل اور 1972 کے شملہ معاہدے کے خلاف ورزی قرار دی۔بعد ازاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں عمران خان نے کشمیر میں انڈین مسلح افواج کی مظالم پر بات کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو ایک بار پھر دو طرفہ معاملات کے تحت حل کرنے کی کوشش کی۔اس کے بعد کچھ عرصے تک تو کشمیر مسئلہ کو مسلسل زیر بحث لایا گیا اور اقوام متحدہ اور OIC کے پلیٹ فارمز پر بھی بات کی گئی۔ جس پر چائنا سمیت ترکی اور انڈونیشیاء نے بھی پاکستان کی حمایت کی لیکن متحدہ عرب عمارات اور سعودی عربیہ سمییت اقوام متحدہ کے سکورٹی کونسل کے پرمننٹ ممبران امریکہ، روس، فرانس اور برطانیہ نے انڈین آئین کو بھارت کا اندورنی معاملہ قرار دے دیا۔ وادی کشمیر میں ہندوستان کے ناروا اور ظالمانہ روئیے کہ باوجود ایک طرف بین اقوامی برادری نے مکمل خاموشی ک اختیار کی ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں خاص مواقع پر کشمیر میں ہونے والے مظالم پر بات ہوتی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان نے اپنے دہشت گردانہ روئے سے نہ صرف پاکستان کو اندورنی طور پر دہشت گردی میں مصروف رکھا ہے بلکہ کشمیر کے حوالے سے بھی بین اقوامی سطح پر اپنے اثر ورسوخ کو بر قرار رکھا ہے۔ بین اقوامی برادری نے ثابت کردیا کہ مسئلہ کشمیر پر انکا موقف کیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کو اگر کشمیریوں کے نقطی نظر سے دیکھا جائے تو شاید اسکا حل ممکن ہو سکے جب تک کشمیر ی عوام حق خود ارادیت محفوظ رکھتے ہیں ان پر کوئی بیرونی قبضہ نہیں کیا جاسکتا۔کشمیریوں کو اپنے حقوق کے تحت اپنی آزادی کا حق حاصل ہے۔بعد ازاں ان کو یہ بھی اختیار ملنا چاہیے کہ وہ ایک آزاد ریاست کے طور پر رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں جبکہ پاکستان اپنی روایتی بہتر سالہ کشمیر پالیسی کے حوالے سے اپنے وایتی ؎ موقف سے ہٹ کرکشمیریوں کے نقطہ ں نظر سے بھی اپنی پالیسی آزمانی چاہیے۔