سلطنت عثمانیہ کا عظیم حکمران اور اسلام کا رکھوالا سلطان محمد فاتح جب تخت نشین ہوا تو بازنطینی دارالسلطنت (قسطنطنیہ) یعنی تُرکی جو ایک طویل عرصہ سے اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے مطلب کہ اس شہر کو صلیبیوں اور منگلو لوں نے اس کو کفر کا گہوارہ بنا رکھا تھا ،سُلطان کی نظروں کا ہدف بن گیا. سلطان محمد فاتح نے اپنی تمام تر توانائیاں اور تمام تر طاقت صرف کر دیں تاکہ بازنطینی شہنشاہت یعنی بادشاہت کو مغلوب(اُن پر اپنا قبضہ)کر کے قسطنطنیہ(تُرکی) کو اسلام کا قلعہ(قسطنطنیہ کو کفر کا قلعہ مانا جاتا تھا)بنا تے ہوئے وہ عظیم کارنامہ سر انجام دے جس کے لیے مسلمان ایک طویل عرصے یعنی کہ (نبی پاک ص کے دور میں بھی صحابہ اکرام نے بھی کئی بار اس کو فتح کر نے کوشش کی تھی) سے کوشش کر تے چلے آ رہے ہیں.
چونکہ عدل و انصاف اور رحمدلی میں بھی سلطان محمد فاتح کا کوئی ثانی(مطلب کے اُس جیسا کوئی نہ تھا)نہ تھا اس لیے فتح قسطنطنیہ سے قبل سلطان نے بازنطینیوں کو خط لکھا کہ وہ شہر(قسطنطنیہ) مسلمانوں کے حوالے کر دےتاکہ خون ریزی نہ ہو اور لوگ مکمل آزادی سے اپنی عبادات اور ہر طرح کی آسائش والی زندگی بسر کر سکیں.سلطان محمد فاتح کے شاہِ قسطنطین کے نام خط کا متن حوالہ کچھ اس طرح ہے:اگر تم شہرمیرے حوالے کر دو گے یعنی کہ مسلمانوں کو دے دو گے تو کسی کو کسی طرح کی تکلیف اور اذیت نہیں دی جائے گی.جو شہر میں رہنا چاہیں گے انہیں ہر طرح کی آزادی حاصل ہو گی.اور جو شہر سے جانا چاہیں گے ان کو جانے دیا جائے گا لیکن قسطنطین نے جب شہر سلطان محمد فاتح(عثمانیہ حکمران)کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تو سلطان نے پُر عزم(خوشی والا لہجہ)لہجے میں کہا کہ:ٹھیک ہے! عنقریب قسطنطنیہ میرا تخت ہو گا یا اس میں میری قبر ہو گی”.
ربیع الاول و ربیع الآخر 857ھ اپریل 1453عیسوی میں عثمانیوں نے خشکی اور سمندر کی طرف سے قسطنطنیہ کا محصرہ یعنی کہ اُس کو گھیر لیا.اس محاصرے میں عثمانیوں کی 400 جہازوں پر سوار 20 ہزار بحری فوج شریک تھی اور اُن کی بری فوج کی تعداد 80 ہزار تھی.سلطان نے شہر کے اِردگرد توپخانہ لگا دیا جس میں توپوں کی 14 بیڑیاں تھیں.
وہ پتھر کے گولے ایک میل تک پھینکتی تھیں. بیران کارڈیف نے اپنی کتاب (مفکرین اسلام) میں لکھا ہے کہ محمد فاتح نے توپوں میں جو گولے استعمال کیے ان میں سے ہر ایک کا وزن 300 کلو گرام تھا اور اُن کی مار ایک میل سے زیادہ تھی. ایک توپ چلانے کے لیے 700 افراد کی ضرورت پڑتی تھی، اس کی نال بھرنے میں دو گھنٹے لگتے تھے جبکہ توپخانہ 200توپوں پر مشتمل تھا.
سلطان محمد فاتح نے جس چیز کی طرف خصوصی توجہ مرکوز رکھی وہ تھی عثمانی بحریہ کو پہلے سے زیادہ مصبوط بنانا اور اس میں کشتیوں کا اضافہ کرنا تاکہ وہ قسطنطنیہ پر حملہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کے اھل بن سکے. قسطنطنیہ تھا بھی ایک ایسا سمندری شہر جس کا محصرہ طاقتور بحریہ کے بغیر نا مکمل تھا.
اگرچہ تینوں اطراف سے پانی میں گھِرے اور بڑی بڑی فصیلوں والے اس شہر کو فتح کر نا ایک مشکل ترین کام تھا لیکن سلطان محمد فا تح اور اس کے جانباز سپاہیوں نے قسطنطنیہ لینے کے لیے خشکی پہ ایسا راستہ تیار کیا جہاں سے طاقتور جانوروں کی مدد سے بیڑے گھسیٹ کے صحرا عبور کیا جا سکے . تختوں کی مدد سے بیڑے خشکی پہ رکھے گے، بیلوں،گھوڑوں اور دیگر مال کَش جانوروں کی مدد سے بیڑے صحرا سے پار نکلوا کر سمندر کی دوسری جانب ڈال دیئے گئے.آخری مزاحمت کے بعد تیرہ سو سالہ بازنطینی تخت کے پائے کٹ گئے اور سلطان محمد فاتح کے لقب عظیم سے ملقب ہونے کا شرف حا صل ہوا. بالآخر انہوں نے 29 مئی 1453 عیسوی کو 54 روز کے طویل محاصرے کے بعد قسطنطنیہ فتح کر لیا.