Skip to content

بہت بڑے خطرے کی بات

جب انسان گناہوں کو ہلکا سمجھتا ہے تو یہ بڑے خطرے کی بات ہوتی ہے،بلکہ مشائخ نے کہا ہے کہ جس گناہ کو لوگ ہلکا سمجھتے ہیں وہ اللہ کے ہاں بڑا ہوتا ہے اِبنِ قیم فرماتے تھے ائے دوست یہ نہ دیکھنا گناہ چھوٹا ہے یا بڑا بلکہ اس ذات کی عظمت کو سامنے رکھنا جس کی تم نافرمانی کر رہی ہو ،ایک بزرگ فرماتے تھے کہ اللہ تعالی نے میرے دل میں القاء فرمایا کہ میرے بندوں سے کہہ دو کہ یہ گناہ کرتے وقت باقی مخلوق سے پردہ کر لیتے ہیں ان تمام دروازوں کو بند کر دیتے ہیں جن سے مخلوق دیکھتی ہے لیکن اس دروازے کو بند نہیں کرتے جس سے میں پروردگار دیکھتا ہوں کیا اپنی طرف دیکھنے والوں میں سے یہ سب سے کم درجے کا مجھے سمجھتے ہیں-

اکمال الشیم میں ایک عجیب بات لکھی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے عدل وانصاف سے مڈ بھیڑ ہوئی تو کوئی بھی گناہ صغیرہ نہیں اور اگر اس کے فضل کا سامنا ہو تو کوئی بھی گناہ کبیرہ نہیں لہٰذا میری دوستوں اگر اللہ تعالیٰ فضل فرما دے تو پھر چاہے جس گناہ کو معاف فرما دے لیکن اگر عدل فرمائیں گے تو پھر معاملہ مشکل بن جے گا،ایک بزرگ اپنے سالکین کو بار بار فرمایا کرتے تھے کہ جفا نہ کیا کرو جفا کہتے ہیں بیوفائی کو کیسے سالک نے پوچھا حضرت بیوفائی سے کیا مراد ہے ہو فرمانے لگے بیوفائی تین طرح کی ہوتی ہے اللہ تعالٰی سے بیوفائی ،مخلوق سے بیوفائی اور اپنی آپ سے بیوفائی پھر وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا اب وہی ہمیں رزق اور باقی نمتیں دیتا ہے اگر ہم اس کا دیا ہوا کھا کر کسي اور کو اس کے ساتھ شریک بنائیں گے تو یہ اللہ تعالیٰ سے بیوفائی جو گی پھر فرمایا کہ لوگوں کو ایذا پہنچانا مخلوق کے ساتھ بیوفائی ہے اس کی مخلوق کا دل نہیں دکھانا چاہے پھر فرمایا کہ اللہ تعالٰی کے حکم کو توڑنا اور گناہ کرنا یہ اپنے آپ کے ساتھ بیوفائی ہے اسی لئے کہ اس طرح انسان اپنے آپ کو جہنم میں جانے کے قابل بنا لیتا ہے

سچی بات تو یہ ہے اگر گناہوں کے اندر بدبو ہوتی تو ہم کسی محفل میں بیٹھنے کا قابل نہ ہوتے یہ اللہ تعالٰی کی شان ہے کہ اس کے صدقے ہم آج عزت کی زندگی گزار رہے ہیں اس لیے ایک بزرگ فرماتے تھے ای دوست جس نے تیری تعریف کی اس نے درحقیقت تیرے پروردگار کی تعریف کی جس نے تجھے چھپایا ہوا ہے یقیناً اگر وہ حقیقت کھول دیتا ہے تو ہم چہرہ دیکھنے کے قابل بھی نہیں ہوتے انسان کی ایک تو ظاہری شکل ہوتی ہے اور ایک شکل عالم مثال میں ہوتی ہے بندہ جس طرح کے عمال کرتے ہے ویسے ہی اس کی شکل ہوتی ہے ،اگر جانوروں والے اعمال کرتا ہے تو اس کی شکل جانوروں جیسی ہوتی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *