مفتی عبدالوحید
آئے روز کوئی ایسی خبر ضرور ملتی ہے جس میں ایک فرد دوسرے کے ساتھ زیادتی کر بیٹھا ہے اور اسی طرح ریاستی سطح پر عامۃ الناس کے ساتھ مختلف طریقوں سے ظلم وزیادتی کا سلسلہ جاری ہے ۔اسی تناظر میں جمعہ کی تقریر کا عنوان ظلم: معاشرے پر اثرات:شریعت اسلامی کی روشنی میں اس کا حل‘‘ طے کیا گیا تاکہ ہر فرد اپنی ذات کو زندگی کے تمام شعبہ جات میں ظلم وزیادتی سے بچائے اور اور ظلم وزیادتی کے خلاف آواز اٹھائے ۔تقریر کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔
۱۔ظلم کا مفہوم :کسی چیز کو ناجائز طریقے سے اس کے اصل مقام کے علاوہ کسی دوسری جگہ رکھنے کو ظلم کہا جاتا ہے ۔اسی طرح ہر اس نا انصافی کو ظلم کہا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے ۔گویا کسی بھی صورت میں حق تلفی کو ظلم کہا جاتا ہے ۔
۲۔قرآن حکیم میں عدل کے قیام کی دعوت اور ظلم کی مذمت :ارشاد باری تعالیٰ ہے : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی اور بےحیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو۔
۲۔فَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذَنُوبًا مِثْلَ ذَنُوبِ أَصْحَابِهِمْ فَلَا يَسْتَعْجِلُونِ پس جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حصہ کا بھی ویسا ہی عذاب تیار ہے۔ جیسا انہی جیسے لوگوں کو ان کے حصے کامل چکا ہے، اس کے لیے یہ لوگ جلدی نہ مچائیں۔
۳۔اللہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ انسان خود اس کے احکامات سے روگردانی کرکے اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے،ارشاد باری تعالی ہے : وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعِبَادِ اور یہ حقیقت ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ۔
۴۔ آپ ﷺ نے اپنے قول وعمل کے ذریعے ظلم سے روکا ہے ، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ظلم سے بچو ، کیونکہ ظلم قیامت کے دن ( دلوں پر چھانے والی ) ظلمتیں ہوں گی ۔
۵۔ظلم کی صورتیں
اللہ کاحق ادا نہ کرنا :اللہ کا حق یہ ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی بندگی نہ کی جائے جو شخص اس کی ذات ،صفات ،ربوبیت ،حاکمیت میں کسی اور کو شریک ٹہراتا ہے تو اللہ کا حق تلف کرتا ہے جس کو قرآن حکیم میں ظلم عظیم سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
بندوں کے حقوق تلف کرنا : معاشرتی زندگی میں ایک دوسرے سے لین دین کا سلسلہ جاری رہتا ہے اس دوران جو شخص کسی کا حق تلف کرتا ہے،(جس میں ناحق قتل ،ڈاکہ زنی ،چوری ،غیبت،بہتان تراشی وغیرہ شامل ہیں) تو وہ دوسروں کے ساتھ ظلم کرتا ہے ۔
اپنی ذات کے ساتھ ظلم :اللہ نے انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنی ذات کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ڈھال لے۔جو شخص اس کے احکامات کو نہیں مانتا ،اپنی من مانیاں کرتا ہے تو وہ اپنے ساتھ ظلم کرتا ہے ۔اسی طرح اس کا اطلاق ان چیزوں میں بھی ہو تا جن کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ صحت کے لیے مضر ہیں ،لیکن انسان جان بوجھ کر یا غفلت میں ان اشیاء کواپنے نفس کی تسکین کے لیے استعمال کرتا ہے تو یہ اس کا اپنے نفس کے ساتھ ظلم ہے ۔
۶۔ظلم کے انفرادی واجتماعی سطح پر اثرات :جس معاشرہ میں انفرادی واجتماعی سطح پر ظلم کی راہ ہموار ہوجائے وہ معاشرہ بدامنی کا گہوارہ بن جاتا ہے ،جہاں ایک دوسرے سے اعتماد ختم ہوجاتا ہے ،اپنے مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے اور اپنے مفاد کو پورا کرنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں ۔
معزز سامعین :آج ہمارے معاشرے میں ظلم بڑھتا جارہا ہے ،اللہ نے جن امور سے منع کیا ہے ان کو کرنے میں عار محسوس نہیں کیا جاتابالخصوص قتل ناحق کا گناہ عام ہوتا جارہا ہے ۔یہ جرم انفرادی طور پر کیا جارہا ہے اور ریاستی سطح پر بھی ۔کبھی اسلام آباد میں نوجوان کو گولیوں سے چھلنی کردیا جاتا ہے تو کبھی کراچی اور ساہیوال میں بچوں کے سامنے ان کے والدین کو قتل کردیا جاتا ہے ،اسی طرح مختلف مقامات پر یہ سلسلہ جاری ہے ۔موجودہ حکومت نے مدینہ کی اسلامی ریاست کا جھانسہ دے کر لوگوں کو بے وقوف بنایا ہوا ہے ۔
ان حالات میں بحیثیت مسلمان ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ظلم کے تمام راستوں کے آگے بند باندھیں اور مظلوم کا ساتھ دینے کی کوشش کریں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رہے کہ ہم اسلامی نظام کو سیکھیں اور اس کو نافذ کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہم اس ظلم سے نجات حاصل کرسکیں ۔
اللہ رب العزت ہمیں ظلم سے نجات دے اور ہماری حفاظت فرمائے ۔آمین
1 comments on “ظلم: معاشرے پر اثرات:شریعت اسلامی کی روشنی میں اس کا حل”
Leave a Reply
ظلم نامی مضمون کافی معلوماتی رہا ایسے مضامین شائع ہوتے رہنے چاہئیں