اپنے قیمتی وقت میں سے تھوڑا سا وقت نکالیں اور ساری پوسٹ غور سے پڑھیں
انسان فانی مخلوق ہیں اور آخر کار موت کا تجربہ کرتے ہیں۔ موت ہماری زندگی کی عارضی نوعیت اور ہماری موت کی ناگزیریت کی یاد دہانی کا کام کرتی ہے۔
اسلام میں انسان کی حقیقت کو اسلامی تعلیمات اور عقائد کے دائرے میں سمجھا جاتا ہے۔ اسلام کے مطابق، انسانوں کو اللہ (خدا) کی ایک منفرد تخلیق کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور تخلیق کی مجموعی ترتیب میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔
اسلامی تعلیمات اس بات پر زور دیتی ہیں کہ انسان کو ایک مقصد کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، جو کہ عبادت اور اللہ کی مرضی کے تابع ہو۔ انسانوں کے پاس جسم اور روحانی پہلو دونوں ہوتے ہیں جسے ‘روح’ کہا جاتا ہے۔ جسم کو عارضی اور فانی سمجھا جاتا ہے، جب کہ روح کو ابدی سمجھا جاتا ہے۔
اسلام سکھاتا ہے کہ انسانوں کو آزاد مرضی دی گئی ہے، جس سے وہ انتخاب کرنے اور اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہونے کا اہل بناتا ہے۔ ہر فرد اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے اور اللہ قیامت کے دن اس کا فیصلہ کرے گا۔ یہ فیصلہ جنت یا جہنم میں ان کی ابدی تقدیر کا تعین ان کے ایمان، اعمال اور اپنی زندگی میں کیے گئے اچھے اور برے اعمال کے توازن کی بنیاد پر کرے گا۔
اسلام فطرت کے تصور پر بھی زور دیتا ہے، جو کہ اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ تعلق تلاش کرنے کے لیے انسان کی فطری فطرت یا رجحان ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ تمام انسان فطرت کی حالت میں پیدا ہوئے ہیں، لیکن بیرونی اثرات اور معاشرتی عوامل انہیں اللہ کی عبادت کی طرف ان کے فطری رجحان سے بھٹکا سکتے ہیں۔
مزید برآں، اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ انسان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے ذمہ داریاں ہیں۔ مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ حسن سلوک، انصاف اور ہمدردی کے ساتھ پیش آئیں، اور خاندان، معاشرے اور بڑی برادری کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔
مجموعی طور پر، اسلام میں ایک انسان کی حقیقت اللہ کی عبادت کے اس کے مقصد، اپنے اعمال کی جوابدہی، روح کی ابدی فطرت، اور اپنے اور دوسروں کے تئیں ذمہ داریوں کو نبھانے کی اہمیت پر محیط ہے۔
اپنی ذات سے، ‘کبھی بھی کسی کو مایوس نہ کریں کیونکہ آپ جوابدہ ہوں گے’، یہ ضروری ہے کہ دوسروں کی حوصلہ شکنی نہ کی جائے کیونکہ ہمارے اعمال اور ان کے نتائج کے اثرات دیر سے ہی سہی ، مگر ضرور ظاہرہوتے ہیں۔ اگرچہ دوسروں کے ساتھ رحمدلی، ہمدردی اور احترام کے ساتھ پیش آنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، لیکن ہمارے اعمال کے لیے ‘جوابدہ’ ہونے کا تصور سیاق و سباق کے لحاظ سے مختلف ہو سکتا ہے۔
عام طور پر، دوسروں کی طرف متوجہ ہونا اور ترقی کرنا باہمی تعلقات کے لیے ایک مثبت نقطہ نظر ہے۔ ہمارے اعمال لوگوں کے جذبات اور فلاح و بہبود پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں، اس لیے اپنے قول و فعل کا دانشمندی سے انتخاب کرنا فائدہ مند ہے۔ تاہم، ہمارے رویے کے لیے ‘جوابدہ’ ہونے کا تصور انفرادی عقائد، ثقافتی اصولوں، اخلاقی معیارات، یا مخصوص حالات سے بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ دوسروں کے ساتھ ذمہ داری اور ہمدردی سے کام لینے کے لیے اپنے اعمال کے ممکنہ نتائج پر غور کرنا ضروری ہے۔
جب موت آئے گی تو یقین جانیں کہ کچھ بھی کام نہ آئے گا,آپ کے دنیا سے جانے پر کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا اور اس دنیا کے سب کام کاج جاری رہیں گے – آپ کی ذمہ داریاں کوئی اور لے لے گا . آپ کا مال وارثوں کی طرف چلا جائے گا اور آپ کو اس مال کا حساب دینا ہوگا- موت کے وقت سب سے پہلی چیز جو آپ سے چلی جائے گی وہ نام ہوگا
لوگ کہیں گے کہ” ڈیڈ باڈی” کہاں ہے؟ جب وہ جنازہ پڑھنا چاہیں گے تو کہیں گے کہ جنازہ لائیں , جب دفن کرنا شروع کریں گے تو کہیں گے کہ میت کو قریب کر دیں, آپ کا نام ہرگز نہ لیا جائے گا
مال، حسب و نسب، منصب اور اولاد کے دھوکے میں نہ آئیں, یہ دنیا کس قدر زیادہ حقیر ہے اور جس کی طرف ہم جا رہے ہیں وہ کس قدر عظیم ہے
آپ پر غم کرنے والوں کی تین اقسام ہوں گی
نمبر1)۔ جو لوگ آپ کو سرسری طور پر جانتے ہیں وہ کہیں گے ہائے مسکین! اللہ اس پر رحم کرے۔
نمبر2)۔ آپ کے دوست چند گھڑیاں یا چند دن غم کریں گے پھر وہ اپنی باتوں اور ہنسی مذاق کی طرف لوٹ جائیں گے۔
نمبر3)۔ آپ کے گھر کے افراد کا غم گہرا ہوگا، وہ کچھ ہفتے، کچھ مہینے یا ایک سال تک غم کریں گے اور اس کے بعد وہ آپ کو یاداشتوں کی ٹوکری میں ڈال دیں گے،
لوگوں کے درمیان آپ کی کہانی کا اختتام ہو جائے گا اور آپ کی حقیقی کہانی شروع ہو جائے گی اور وہ آخرت ہے۔ آپ سے زائل ہوجائے گا آپ کا
نمبر1)۔ حسن
نمبر2)۔ مال
نمبر3)۔ صحت
نمبر4)۔ اولاد
نمبر5)۔ آپ اپنے مکانوں اور محلات سے دور ہو جائیں گے
نمبر6)۔ شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے جدا ہو جائے گی
آپ کے ساتھ صرف آپ کا عمل باقی رہ جائے گا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی قبر اور آخرت کے لیے ابھی سے کیا تیاری کی ہے؟ یہ وہ حقیقت ہے جو غور و فکر کی محتاج ہے اس لیے آپ اس کی طرف توجہ کریں
نمبر1)۔ فرائض
نمبر2)۔ نوافل
نمبر3)۔ پوشیدہ صدقہ
نمبر4)۔ نیک اعمال،
نمبر5)۔ تہجد کی نماز
نمبر6)۔ اور اچھے اخلاق کی طرف
شاید کہ نجات ہو جائے
مرنے والے کو اگر دنیا میں واپس لوٹایا جائے تو وہ صدقہ کرنے کو ترجیح دے گا جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے
رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ …(المنافقون:10)
اے میرے رب ! تو نے مجھے قریب مدت تک مہلت کیوں نہ دی کہ میں صدقہ کرتا۔
وہ یہ نہیں کہے گا کہ میں نماز ادا کر لوں یا میں روزہ رکھ لوں یا میں حج اور عمرہ کرلوں۔
• علماء کہتے ہیں کہ میت صرف صدقے کا ذکر اس لیے کرتی ہے کیونکہ وہ اپنی موت کے بعد اس کے عظیم اثرات دیکھتی ہے لہذا زیادہ سے زیادہ صدقات و خیرات کریں۔ اور بہترین چیز جس کا آپ ابھی صدقہ کر سکتے ہیں وہ آپ کے وقت میں سے دس سیکنڈ ہیں۔ آپ خیر خواہی اور اخلاص کی نیت کے ساتھ اس تحریر کو دوسروں تک پہنچائیں کیونکہ اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے۔
اگر آپ اس تحریر کے ذریعے لوگوں کو یاد دہانی کروانے کی کوشش کریں گے تو قیامت کے دن اسے اپنے ترازو میں پائیں گے
وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الذاريات:55)
اور نصیحت کیجیے، کیونکہ یقینا نصیحت ایمان والوں کو نفع دیتی ہے۔۔