*خلیفہ چہارم داماد رسول، شوہر بتول،سسر عمرؓ بن خطاب شیر خدا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ*
*نام مبارک: علی*
*کنیت* :ابوالحسن،ابوتراب۔
*لقب* : حیدر ومرتضیٰ۔
*والد کانام* : ابو طالب۔
*والدہ کانام* : فاطمہ بنت اسد۔
*سلسلہ نسب:*
علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی القرشی ہاشمی۔
*تاریخ پیدائش*
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: صحیح قول کے مطابق آپ کی ولادت بعثت نبوی سے دس برس قبل ہوئی ۔(الاصابۃ ج:۲)-روافض نے بھی یہی لکھا پیدائش واقعہ فیل کے ۳۰/سال بعد اور ہجرت سے ۲۵/یا۲۳/سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔{نورالابصار]
*قبول اسلام*
آپ کے والد جناب ابوطالب اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح خوشحال نہ تھے ،مکہ کے مشہور قحط کی وجہ سے ان کی مالی حالت اور زیادہ کمزور ہوگئی تھی جبکہ آپ کثیر العیال تھے ۔حضور رحمت عالم ﷺ سے آپ کی تکلیف نہ دیکھی گئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پرورش کی ذمہ داری اپنے ذمہ لےلیا ،اس طرح سے حضرت علی رضی اللہ عنہ آغوش رسالت میں پرورش پا کر شعور کی منزل کو پہنچے۔بعثت کے ابتدائی ایام میں انہوں نے آپ ﷺ اور ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبری کو نمازپڑھتے دیکھا تو حیرت سے دریافت کیا کہ آپ دونوں کیا کر رہے ہیں؟رسول اللہﷺ نے ارشاد فر مایا کہ: یہ اللہ کا دین ہے جس کو اللہ نے اپنے لئے پسند
فرمایا ہے اور اسی کے لئے انبیائے کرام کو مبعوث فر مایا ہے۔میں تمہیں بھی خدائے وحدہ لاشریک کی طرف بلاتا ہوں جو تنہا معبود ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔حضورﷺکی صحبت اور تربیت کی برکتوں نے آپ کی فطرت سلیم کو پہلےہی نِکھار دیا تھا چنانچہ ایک رات سوچنے کے بعد آپ نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔اسلام لانے سے پہلے آپ کا دامن عرب کے جاہلی رسوم اور اوثان پرستی سے کبھی بھی داغدار نہ ہوا۔
*ہجرت*
جب کفاران مکہ نے خفیہ طریقے سے حضور نبی رحمت ﷺ کو قتل کرنے کا مکمل منصوبہ بنا لیا اور یہ معاملہ طےہوگیا کہ آج رات ہر قبیلہ کا ایک نوجوان ننگی تلوار لے کر کا شانہء نبوت کا محاصرہ کرے گا اور پیغمبر اسلام ﷺ پر اچانک حملہ کر کے ان کا کام تمام کردے گا۔تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اپنے حبیبﷺ کو کفاروں کے مکرو فریب پر مطلع فرمایا ۔حضور اکرم ﷺ نے اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ارشاد فرمایا کہ: آج رات میرے بستر پر سو جانا اور میرے پاس جو مکہ والوں کی امانتیں ہیں انہیں واپس کرکےتم بھی مدینہ چلے آنا۔چنانچہ حضور اکرم ﷺ اس رات حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہجرت کر گئے۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ آپﷺ کےفرمان کے مطابق اُس رات جبکہ گھر کے چاروں طرف دشمنان اسلام ننگی تلواریں لئے پہرہ دے رہے تھے ۔آپ اطمینان کے ساتھ حضورﷺ کے بستر پر سوئے رہے اس کے بعد آپ تین دن تک اہل مکہ کی امانتوں کو واپس کرتے رہےپھر آپ بھی ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔
Also Read:
*حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی* :سن ۲/ہجری میں حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی سب سے چہیتی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ کے ساتھ کر دیا اور بعد نکاح خیر وبرکت کی دعا فرمائی۔اورحافظ ابن حجر نے”الاصابہ” میں تحریر فر مایا کہ:نکاح ماہ رجب سن ۱/ہجری میں ہوا اور رخصتی غزوہ بدر کے بعد سن ۲/ہجری میں ہوئی۔{خلفائے راشدین۔معارف صحابہ،جلداول
تحریر محمد عدیل علی خان
https://twitter.com/iAdeelalikhan?s=09