اسی الحادی نظریہ کی وجہ سے سیکولر کا جنم ہوا جو الحاد اور دین کے درمیان درمیان ہے۔ایل یورپ کے بڑے اشرافیہ طبقے نے اس کو قبول کر لیا ان کے نزدیک ملحد اور لادین ہونے کا مطلب وہ تعلیم یافتہ طبقے میں سے ہے۔اوردوسری جانب اہل دین میں کافی فرقوں نے جنم لے لیا اور ہر کوئی اپنے اپنے فرقے کا پابند تھا اپنے فرقے سے باہر نکل کر بات نہیں کر سکتا تھا کوئی بھی ۔تو اس کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے دین کو ترک کرکے سیکولرزم کو قبول کر لیا جہاں ہر انسان آزاد ہے کہ چاہے وہ کچھ بھی بکے اللہ کی توہین کردے اور مقدس شخصیات کی توہین کرے ۔
لیکن اس کو آزادی اظہار رائے کا حق حاصل ہے زنا کرے شراب پیے حتی کہ اپنے محرم رشتے ماں بہن پھوپھی اور خالہ وغیرہ سے بھی منہ کالا کرے اور ہم جنسی پرستی بھی اپنائے اس کو پوچھنے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے ۔اس گھٹیا اور رذیل قسم کے نظریات کی محافظ جمہوریت ہے۔جہاں جہاں اگردین کو سرکاری سطح پر کچھ اہمیت حاصل ہے وہ بھی نمائشی ہے۔اورجمہوریت کی محافظ افواج ہیں اور جو بھی اس کفریہ کے خلاف کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے اس کو فوجی طاقت کے ذریعے کچل دیا جاتا ہے اس منحوس کی وجہ سے ہم جنس پرستی کے قوانین نافذہو چکے ہیں۔
ویسے تو عیسائیت میں بھی زنا حرام ہے لیکن جمہوریت میں اکثریت کی بنا پر اس کو قانونی طور پر اجازت مل جاتی ہے۔اس جمہوری نظام میں حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دیا جاتا ہے۔حرام کو حلال کرنا تو واضح ہے لیکن حلال کو حرام کرنے کا کیا مطلب ہے یہاں اسلام کی بات کرنا حرام ہے جہاد اور خلافت کانام لینا حرام ہے مقدس شخصیات کا نام لینا حرام ہے انصاف حرام ہے یہاں کمزوروں کو سہارا دینا حرام ہے یہاں۔ اسی طرح معیشت کا پورا نظام سود پر قائم کیا گیا وہ سود جس کے خلاف اللہ اور اس کے رسول نے اعلان جنگ کیا ہے۔لیکن سیکولرزم کے نتیجے میں الحاد اب پورے یورپ میں قوت اختیار کر چکا ہے۔ان کی اکثریت نے ابھی تک خدا کا انکار تو نہیں کیا لیکن عملا کر چکے ہیں۔اب یورپ میں اخلاقیات اور دین فطرت باقی رہ چکا ہے جس کو ملحدین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ “سیکلولر نظریہ کا فروغ”