غزوہ بدر میں مشرکین کو بہت جانی اور مالی نقصان پہنچا تھا اور ان کے نامی گرامی سردار بھی مارے گئے تھے ان کے دل میں مسلمانوں سے بدلہ لینے کی آگ بھڑک رہی تھی اس لئے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاری شروع کر دی تھی ابوسفیان جو قریش کا سب سے سردار تھا نے کئی دوسرے قبیلوں کو ساتھ ملا کر مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لئے 3 ہزار کا لشکر تیار کر لیا
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں تھے جب انہیں معلوم ہوا کہ کفار مدینہ پر حملہ کی تیاری کر چکے ہیں انہوں نے فورا مدینہ میں نبی علیہ السلام کو خبر پہنچائی کفار مدینہ پر حملہ کرنے آرہے ہیں نبی علیہ السلام نے مہاجرین اور انصار کو جمع کرکے مقابلے کے لئے رائے لیں آخر کار مدینہ سے باہر جا کر مقابلہ کرنے کے فیصلہ کر دیا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شوال 3 ہجری کو ایک ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ روانہ ہوئے عبداللہ بن ابی راستے میں تین سو سواروں کو لے کر الگ ہو گیا ہم مسلمان کی تعداد صرف سات سو رہے گی یہ منافقین کا سردار تھا -7 شوال ہفتے کے دن غزوہ احد کا واقعہ پیش آیا جنگ سے پہلے نبی علیہ السلام نے احد کے پہاڑ پر ایک درے میں پچاس تیر اندازوں کو مقرر فرمایا حکم دیا اس کے بارے میں پتہ ہو یا شکست آپ نے اس جگہ کو نہیں چھوڑ رہے کیونکہ دشمن پر پیچھے سے حملہ کر سکتا ہے
لڑائی شروع ہوئی تو کافروں کے بڑے بڑے جنگجو مارے گئے ابتدا میں کفار کے بارہ سردار مارے گئے جو عام لڑائی ہوئی تو مسلمان کی طرف سے حضرت علی سے طرح حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے کفار کا اس طرح جم کر مقابلہ کیا کہ وہ حواس باختہ ہو گئے اور انہوں نے میدان جنگ سے بھاگنا شروع کردیا جب میدان جنگ خالی ہوا تو مسلمان مال غنیمت جمع کرنے لگے پہاڑ پر پچاس تیر اندازوں نے جب دیکھا کہ مسلمان مال غنیمت جمع کر رہے ہیں تو مسلمانوں کی مدد کیلئے میدان میں آنا چاہ رہے تھے امیر نے منع فرمایا جب تک نبی علیہ السلام نہیں بلاتے ہیں جب تک جانا نہیں ہے مگر ان لوگوں نے سوچا کہ نبی سلام کا حکم صرف جنگ تک تھا ان لوگوں نے اپنی جگہ خالی چھوڑ دی جب کافروں نے دیکھا کی جگہ خالی ہے تو ان لوگوں نے خالد بن ولید کب مسلمان نہیں ہوئے تھے پاؤں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو گھیرے میں لے لیا اور بہت صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین شہید ہو گئے جس میں زیادہ تعداد حافظ قرآن کی تھی کفار نے نبی علیہ السلام پر بھی حملہ کیا جس سے نبی صلی وسلم کے دو دانت مبارک شہید ہوگئے حضرت ابو طلح زیادہ ہو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ السلام کے سامنے کھڑے رہیں
اسی دوران حضرت معصب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ جو کہ آپ اللہ علیہ وسلم کے ہم شکل تھے کفار نے شہید کردیا اعلان کرنے لگا کہ نعوذباللہ انہوں نے نبی علیہ السلام کو شہید کر دیا ہے یہ خبر سن کر مسلمان پریشان ہوگئے ایسے وقت میں نبی علیہ السلام نے صحابہ کرام کو جمع فرمایا اور آواز دی کہ تمہارا نبی علیہ السلام یہاں ہیں مسلمان نبی علیہ السلام کے ارد گرد جمع ہو گئے جس پر کفار مکہ میدان جنگ سے بھاگ گئے -اس جنگ میں 70 کے قریب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے ہے جس میں نبی علیہ السلام کا چچا حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ بھی تھے اس کے باوجود کفار مکہ پر یہ بات واضح ہوگئی کہ مسلمان اگر کی تعداد میں کم اور بے سر و سامان ہیں لیکن وہ کفار کے مقابلے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں -مسلمانوں کو اس غزوہ سے یہ سبق حاصل ہوئی کسی بھی وقت میں نبی علیہ السلام کے حکم کا انکار نہیں کرنا چاہیے