جہاں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان پر بے شمار احسانات کیے وہیں پروردگارِ عالم کا بہت بڑا احسان یہ بھی ہے کہ اس نے انسان کو علم سے سرفراز کیا،۔انسان کو قلم کے ذریعے بہت سارے علوم و فنون کی تعلیم دی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سب سے افضل ترین کتاب قرآنِ مجید،فرقانِ حمید اور سنتِ رسول کا علم عطا کیا-
یہ علم ہی ہے جس کی بدولت انسان کو الله تعالیٰ کا نائب بنا کر زمین میں اتارا گیا ،اسے اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کیا گیا،اور ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو- یعنی علم ہی انسان کی عظمت کی بنیاد ہے-دنیا کے سارے مذاہب علم کی اہمیت کو مانتے ہیں اور اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ علم ایک لازوال دولت ہے، مگر علم کی جو ترغیب اور تاکید دینِ اسلام نے کی ہے وہ کسی اور مذہب نے نہیں کی- اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ باری تعالیٰ کی نازل کردہ کتابِ مبین کی سب سے پہلی وحی میں الله تعالیٰ عِلم کی ترغیب دے رہے ہیں- پہلی وحی میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ” پڑھیے اور آپ کا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کا اسے علم نہیں تھا”- الله تعالیٰ نے جو پیغام سب سے پہلے دیا وہ یہ کہ انسان پڑھے،لکھے اور علم حاصل کرے تاکہ وہ فرماں بردار بن سکے اور اس طرح ایک اسلامی معاشرے کی راہ ہموار ہوسکے-
حضورِاکرم صلی الله عليه وسلم کی آمد سے قبل عرب کا معاشرہ جہالت اور گمراہی میں گِرا ہوا تھا-اس معاشرے میں لوگ بے جا غرور،تکبر،بڑائی اور جہالت جیسی امراض میں مبتلا تھے اور ایک دوسرے پر دولت کی بنیاد پر فوقیت حاصل کرتے تھے کہ ان کے نزدیک عزت دار وہی ہے جو زیادہ امیر اور دولت مندہو- سرکارِ دوعالم نے ایمان سے محروم عرب کے ان قبائل کے لوگوں کی زندگیوں کو علم کے نور سے منور فرمایا اور اسی علم کی بدولت یہ عرب کے بدّو ایک مہذب قوم کے سانچے میں ڈھل گئے اور بہت ہی قلیل عرصے میں پوری قوم امتِ واحدہ کے رشتے میں منسلک ہوکر قرآن و حدیث کی تعلیم میں مصروف ہوگئی- عِلم کی اہمیت رسولؐ کی بے شمار احادیث کی روشنی میں واضح ہوتی ہے جبکہ حضورِ اکرم نے اپنے بارے میں فرمایا “میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں”،اور حضور نے اپنی ساری زندگی علم سکھانے میں وقف کردی تاکہ لوگ علم حاصل کرکے اپنے پرودگار کی فرماں برداری اور اطاعت میں آسکیں-
حضورۖ نے علم کی اشاعت کے سلسلہ میں فرمایا مجھ سے ایک آیت بھی سنو تو اسے آگے پہنچا دو،اس کی تبلیغ کرو- اسی طرح حجتہ الوداع کے موقع پر حضورۖ نے فرمایا “جو حاضر ہیں وہ میری بات ان تک پہنچا دیں جو یہاں نہیں ہیں
اسلام میں علم کو دو مرتبے حاصل ہیں- ایک علم فرضِ عین ہے اور دوسرا فرضِ کفایہ- فرضِ عین علم یہ ہے کہ ارکانِ اسلام اور دینِ اسلام کی تمام بنیادی معلومات سے آگاہی حاصل ہو- ہر مسلمان کے لیے دین کا کم از کم اتنا علم حاصل کرنا فرض ہے کہ جس کی وجہ سے وہ خود کو جہالت سے بچا سکے- جس کے ذریعے اپنے معمولاتِ زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکے، روز مرّہ کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل میں حلال اور حرام کی تمیز کرسکے- علم کا دوسرا مرتبہ فرضِ کفایہ یعنی دنیوی علوم کا حصول-
علم کی حدود صرف دین میں ہی مقّید نہیں بلکہ وہ دنیوی علم حاصل کرنا بھی ضروری ہے جو قوم اور انسانوں کی فلاح وبہبود میں مددگار ثابت ہوسکے- اسی لیے تو حضورۖ نے ایک موقع پر جنگی قیدیوں کے لیے (جوکہ کافر تھے) شرط رکھی کے وہ مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں- بلاشبہ وہ دنیوی علوم سے واقف تھے-عِلم حاصل کرنا ایک ضروری امر ہے کیونکہ الله کی رضا کے لیے علم حاصل کرنا نیکی ہےاورعلم کی طلب عبادت ہے- اسی لیے طالبِ علمی کے زمانے میں مر جانے کو شہادت کا درجہ عطا کیا گیا- علم پھیلاؤ تو صدقہ بن جاتا ہے، یہ تنہائی کا ساتھی ہے، فراخی اور تنگدستی میں رہنما، غمخوار دوست اور بہترین ہم نشین ہے- علم دلوں کی زندگی اور اندھوں کے لیئے بینائی ہے- جو لوگ علماء کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں دنیا کی ہر چیز ان کی مغفرت کی دعا کرتی ہے۔
علماء کو انبیاء کے وارث کہا گیا- اسلام ہمیں علم حاصل کرنے کی تاکید اس لیے کرتا ہے تاکہ ہر انسان علم کے ذریعے اشرف المخلوقات کے درجے کو پہنچ سکے- اسلام کتاب الله اور سنتِ نبویؐ کو حقیقی علم قرار دیتا ہے اور دوسرے علوم کو معلومات کا درجہ دیتا ہے- اسلام میں حقیقی علم حاصل کرنا فرض ہے جبکہ معلومات کو اپنی اپنی استعداد کے مطابق حاصل کیا جاسکتا ہے-
عادل فاروق