Skip to content
  • by

استاد کی اہمیت

استاد کی اہمیت
تحریر:سعدیہ ناز

اللّٰه نے جب انسان کو پیدا کیا تو اسے اکیلا نہیں چھوڑا،اسے اس بھری دنیا میں بے آسرا نہیں چھوڑا بلکہ اسے ماں باپ جیسی عظیم نعمت دی،جو اسکی پرورش کریں،اس کی تربیت کریں،اسے اچھے اور برے کا فرق بتلائیں تاکہ معاشرے میں ایک اچھا انسان پروان چڑھے۔ایک بچے کی پہلی درسگاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے،وہ وہی سیکھتا ہے جو اسے اس کی ماں سکھاتی ہیں،اس کی تربیت کرتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بچے کو ایک اور انسان کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے علم کی نعمت سے روشناس کراسکے،جو اس کی شخصیت کو نکھار سکے,،اسکو اخلاقی زیور سے آراستہ کرسکے,اسے مختلف فنون سے آگاہ کرسکے،اس انسان کو عام الفاظ میں”استاد”کہتے ہیں۔

ایک استاد اپنے شاگردوں کے لئے “روحانی ماں باپ”کا درجہ رکھتا ہے،جس طرح انسان کا اپنے والدین سے خون کا رشتہ ہوتا ہے،اسی طرح استاد سے اس کا “روحانی”رشتہ ہوتا ہے،”احساس” کا رشتہ ہوتا ہے، عزت و احترام کا رشتہ ہوتا ہے۔اور یہ عزت و احترام استاد کا حق ہے جو ہر شاگرد پر فرض ہے۔کیونکہ وہ کوئی عام انسان نہیں ہے،بلکہ استاد تو وہ ہے جو ہمیں ایک اچھا اور باشعور انسان بناتا ہے،جو ہمیں اپنی اولاد کی طرح محبوب رکھتا ہے،جو ہماری کامیابوں پر ہمارے والدین کی طرح ہی خوش ہوتا ہے تو بھلا ہم کیوں کر اس کی عزت نہ کریں ؟کیوں اس کا احترام نہ کریں؟

لیکن نہ جانے کیوں ہماری نوجواں نسل اس عظیم انسان کے رتبے کو بھول گئی ہے،نہ جانے کیوں وہ اسے ایک عام انسان سمجھتی ہے،اس کی ڈانٹ کو اپنی بے عزتی سمجھتی ہے اس کی مار کو تشدد سمجھتی ہے،جبکہ وہ تو اگر ڈانٹتا بھی ہے تو اس لئے تاکہ اسے دنیا کی ڈانٹ سے بچاسکے، اسے اس معاشرے میں رسوا ہونے سے بچاسکے،اگر مارتا بھی ہے تو اس لئے تاکہ اسے اس بے رحم دنیا کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں ،وہ سختی بھی کرتا ہے تو اس لئے تاکہ اسے دنیا کے سخت لہجے نا برداشت کرنے پڑیں۔

کسی بھی ملک کے فوجی اداروں میں جب نوجوانوں کو بھرتی کیا جاتا ہے تو انہیں جاتے ہی پھولوں کے ہار نہیں پہنائے جاتے،ان کو سخت ٹریننگ دی جاتی ہے تاکہ وہ اس سختی سے مضبوط بنیں،تاکہ وہ اس وقتی سختی سے مستقبل میں اپنے وطن کے ایماندار محافظ بنیں اور دشمنوں سے اپنے ملک کو بچاسکیں۔پھر یہی نوجوان اپنے استاد کی محنت اور سختیوں کی بدولت ملک و قوم کے لئے باعث فخر بنتے ہیں۔

کسی نے کیا خوب لکھا ہے،

” *جو شخص استاد کی سختیاں برداشت نہیں کرسکتا اسے پھر زمانے کی سختیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں”*

لہذا ہر طالب علم پر فرض ہے کہ وہ اپنے استاذہ کا عزت و احترام کرے اور ان کی باتوں کو،ان کی نصیحتوں کو غور سے سنے اور نہ صرف طالبِ علمی کے زمانے میں بلکہ عملی زندگی میں آنے کے بعد بھی اپنے استاذہ سے روابط قائم رکھے، ان سے ملے اور ان کی قیمتی دعاؤں سے فیضیاب ہو۔یاد رکھیں وہ شخص زندگی میں کامیاب نہیں ہوسکتا جو اپنے والدین اور استاد کی عزت اور ان کی نصیحتوں پر عمل نہ کرے۔
شاعر نے کیا خوب لکھا ہے،

گمنامی کے اندھیرے میں تھا
ایک پہچان بنادیا
دنیا کے غموں سے انہوں نے مجھے انجان بنادیا
ان کی ایسی مہربانی ہوئی کہ
استاد جی نے مجھے ایک اچھا انسان بنادیا!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *