تعارف
آج پوری دنیا میں مسلمان زوال کا شکار ہیں، چاہے وہ علم، ایجادات یا ٹیکنالوجی کا میدان ہو۔ دنیا میں جتنی بھی ایجادات ہو رہی ہیں مسلمانوں کا ان میں دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ جہاں اس صورتحال میں مسلمانوں کا قصور تو ہے ہی وہاں یہ زمہ داری ہمارے برائے نام علما پر بھی جاتی ہے۔ کیونکہ مسلمان تحقیق میں اتنے پیچھے جا چکے ہیں کہ انہوں نے کبھی بھی کسی چیز کی تہہ نہیں دیکھی، بس جس کسی نے جو بات کی اسی پر یقین کرلیا۔
ہمارے ہاں جب بھی کوئی نئی شہ مصارف ہوتی ہے تو فورا یہ لوگ اپنا فتوٰی لے کر پہنچ جاتے۔ اوپر سے ہماری بدقسمتی دیکھئے کہ کس طرح ہم انکے فتوٰی کو سچ مان لیتے ہیں۔کسی نے اس بارے نہیں سوچا کہ فتوٰی کیا، کب اور کون دے سکتا ہے؟ بس اسی چیز کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور فتوٰی کو یہ لوگ بلیک میلنگ کے طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ مسلمان کو ترقی سے روک سکے۔آج ہم برائے نام علما کے ان فتووں پر روشنی ڈالتے ہیں جنکی وجہ سے مسلمان آج اس حالت میں موجود ہیں؛
نمبر1.انگریزی زبان حرام
قیام پاکستان سے پہلے برصغیر میں مسلمانوں کی معاشی حالت انتہائی خراب تھی۔ انکی اس حالت کی وجہ مسلمانوں کو اچھی نوکری نہ ملنا تھا اور ان کو اچھی نوکری نہ ملنے کی وجہ مسلمانوں کا پڑھا لکھا نہ ہونا تھا، اور یہی وجہ تھی کہ وہ انگریزی نہیں جانتے تھے۔1875 میں سر سید احمد خان سے مسلمانوں کی یہ حالت دیکھی نہیں گئی اور انہوں نے مسلمانوں کو نا صرف پڑھنے لکھنے کی تلقین کی بلکہ انگریزی زبان و سائنسی علم کے سیکھنے کو وقت کی اشد ضرورت قرار دیا تاکہ مسلمان دنیا میں انکا مقابلہ کر سکیں۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے سر سید احمد خان نے علی گڑھ نامی تحریک چلائی۔
بجائے اس تحریک کی حمایت کی جاتی ، ہمارے برائے نام علماء نے اس پر اپنا فتوٰی جاری کردیا کہ ہم نہ صرف اس زبان کو سیکھے گے بلکہ جو بھی ایسا کرے گا حرام کام کا مرتکب ہوگا۔ (یہاں آج بھی انگریز کی ایجاد کے استعمال کو حرام تصور کیا جاتا ہے چاہے وہ کرکٹ کھیل ہو یا کوئی بھی ٹیکنالوجی)انہوں نے سر سید احمد خان کو اس عمل سے بھرپور روکا اور انکے خلاف الٹا تحریکیں چلا دی کہ یہ مسلمانوں کو ورغلا رہے ہیں ، لیکن اللہ بھلا کرے سر سید احمد خان کا کہ انہوں نے انکی ہر سازش کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کر کے اپنے مقصد کو ایسے ہی جاری رکھا ، لیکن ہمارے لوگوں کی اکثریت نے انگریزی نہیں سیکھی اور اسکی بڑی وجہ مسلمانوں کا اندھے طریقے سے ا نہیں لوگوں کی پیروی کرنا ہے۔
نمبر2.پرنٹنگ پریس حرام
سنہ1450 میں جیسے ہی جرمنی کے اندر پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا، اس نے پوری دنیا میں دھوم مچا دی۔ یہ پہلی دفعہ ہوا تھا کہ کسی بھی چیز کی اشاعت ہاتھ کی بجائے مشین سے چھپ رہی تھی۔ یہ ایک طرح کا پورے یورپ میں انقلاب سمجھا جا رہا تھا۔ دوسری طرف مسلمانوں کی موجودہ سوپر پاور سلطنت عثمانیہ میں بھی اس خبر کو کافی مقبولیت ملی۔ لیکن پھر وہی ہوا جو مسلمانوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ وہاں کے ایک شیخ نے فتوٰی جاری کردیا کہ پرنٹنگ پریس ایک شیطانی چڑکھا ہے، اسکا استعمال حرام ہے۔
ہم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ اس کو موقع پر اڈاپٹ نا کر کے ہم دنیا میں کتنا پیچھے رہ گئے۔ دنیا میں وہ قوم کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتی جو وقت پر جدت کو فالو نہیں کرتی۔ اور یہی ہمارے ساتھ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ اگر مسلمان اس وقت اس فتوٰی کے پیچھے دھان نہ دیتے تو وہ بھی پرنٹنگ پریس میں اپنی ایجادات کر کے دنیا کو حیران کرسکتے تھے، وہ بھی ہاتھ کی بجائے مشین کے ذریعے سے علم کی اشاعت کر کے لوگوں میں جلدی سے پھیلا سکتے تھے، جسکی وجہ سے علم کے پھیلاو میں خاطرخواہ اضافہ دیکھنے کو ملتا۔
نمبر3.ٹیکنالوجی اڈاپشن حرام
ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی وجہ پر غور کریں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ قوم کے دفاعی نظام کی مضبوطی سے زیادہ اہم قوم کی ٹیکنالوجی میں ترقی ہے۔ آج ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو سکول سے ہی جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جارہی ہے اور دوسری طرف ہمارے مسلم ممالک ہیں جہاں سرے سے ہی کوئی ایجوکیشن سسٹم نہیں۔ بچہ پڑھ کر یونیورسٹی تک تو پہنچ جاتا ہے لیکن وہاں بھی تعلیم کا لیول ایسا ہے کہ پریکٹیکل ورک نام کی کوئی شہ نہیں۔
اس سب بدقسمتی کے باوجود رہی سہی کسر ہمارے برائے نام علماء اپنے فتووں سے نکال رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی میں بھی انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی جیسا کہ ہوائی جہاز، انٹرنیٹ، موبائل فون پر فتوٰی، اور تو اور آن لائن کمائی پر بھی فتوٰی۔ انکے فتوے کی وجہ طرف اور صرف ایجاد غیر مسلم کی ہونا ہے۔ حالانکہ دوسری طرف دیکھا جائے تو ان چیزوں سے اربوں لوگوں کی تعداد مستفید ہورہی ہے، ہر سال لاکھوں کی تعداد میں مسلمان تک جہاز میں سفر کر کے عمرہ و حج کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ کروڑوں کی تعداد میں مسلمان انٹرنیٹ کی مدد سے دین کی تبلیغ کر رہے ہیں۔ اسی طرح ٹیکنالوجی سے ہم دین و دنیا دونوں میں اوپر جاسکتے ہیں اگر ہم ان برائے نام علماء کی باتوں پر دھیان نہ دیں۔
حاصل نتیجہ
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم دنیا میں برابری کی بنیاد پر کھڑے ہوں، تو ہمیں اپنی یہ حالت بدل کر سوچ میں مثبت پھیلاو لانا ہوگا اور ہمیں خود ہر شہ میں صحیح وغلط کی پہچان کرنی ہو گی۔ آج ٹیکنالوجی کی مدد سے کسی بھی چیز کو ڈھونڈنا بہت آسان ہوگیا ہے۔ہم نے اگر اس مائنڈ سیٹ کو نہ بدلا تو کوئی بھی ہمیں ترقی پر نہیں لا سکتا، اسی لیے اللہ نے بھی قرآن میں واضح فرما دیا ہے کہ خدا اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتا جو قوم خود اپنی حالت نہ بدلے۔
تحریر؛
ریحان علی