صحابی رسول حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ

In اسلام
August 15, 2021
صحابی رسول حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ

حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ نے ایک ایسے خوش نصیب گھر میں نشوونما پائی جس کے ہر زاویے میں ایمان کی دل آویز مہک پھیلی ہوئی تھی۔ اور جس کے ہر ساکن کے دل میں اللہ و رسول کے حکم پر قربان ہوجانے کا جذبہ موجزن تھا۔حضرت حبیب کے والد محترم زید بن عاصم رضي اللہ عنہ مدینہ منورہ کے مسلمانوں میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔انکی والدہ اُم عمارہ بنو مازن قبیلے سے تھیں۔ یہ وہ پہلی خوشنصیب اور بہادر خاتون ہیں جس نے دین الٰہی اور رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں سب سے پہلے تلوار اٹھائی۔

حضرت حبیب غزوہ بدر میں شریک نہ ہوسکے اسلئے کہ یہ اس وقت بہت چھوٹی عمر کے تھے۔ اور نہ ہی انہیں جنگ اُحد حصّہ لینے کا شرف عظیم حاصل ہوسکا اسلیے کہ اس وقت بھی ابھی تلوار اٹھانے کے قابل نہ ہوئے تھے لیکن اس کے علاوہ تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھرپور ساتھ دیا اور ہر غزوے میں شجاعت، تجربہ، مجدد و شرف اور قربانی کی ناقابل فراموش داستانیں رقم کیں۔لیکن آپکو ایسی دردناک داستان سنانا مقصود ہے جو انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کا باعث بنتی ہے۔مسلمہ کذاب جس نے جھوٹی نبوّت کا دعویٰ کیا تھا۔ مسلمہ کذاب کا شر و فساد جب حد سے بڑھ گیا۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے ایک ایسا خط ارسال کرنے کا ارادہ کیا جس کے ذریعے اُسے گمراہی سے روکیں اور یہ خط لے جانے کے لئے ہماری اس داستان کے ہیرو حضرت حبیب کو منتخب کیا گیا۔حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پا کر راستے کے نشیب و فراز سے شاداں و فرحاں گزرتے ہوئے نجد کے بالائی علاقے میں دیار بنو حنیفہ میں پہنچے اور یہ خط مسلمہ کذاب سپرد کیا۔ خط پڑھتے ہی و غصے سے لال پیلا ہوگیا۔اس نے حضرت حبیب کو قیدی بنا کر لوگوں کے جم غفیر میں کھڑا کر پوچھا کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اُنہوں نے فرمایا: ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔اس نے پھر پوچھا کہ کیا میں اللہ کا رسول ہوں؟

حضرت حبیب نے مذاق کے انداز میں کہا کہ میرے کان تیری بات سننے سے قاصر ہیں۔یہ سن کر مسلمہ نے جلاد سے کہا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ کاٹ دو۔ جلاد نے حضرت حبیب پر تلوار سے زور دار وار کیا اور جسم کا ایک حصہ چشم زدن میں کٹ کر زمین پر پھڑپھڑانے لگا۔اسکے بعد مسلمہ نے وہی سوال کیا اور صحابی رسول نے سینہ تان کر وہی جواب دیا۔جس پر مسلمہ نے جلاد کو انکے جسم کا ایک ایک حصہ کاٹنے کا حکم دیا لیکن حضرت حبیب کی زبان مبارک پر آخری دم تک یہی الفاظ تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں۔بالآخر انکی پاکیزہ روح پرواز کر گئی۔حضرت حبیب کی شہادت کی خبر جب اُنکی والدہ ماجدہ کو ملی تو ارشاد فرمایا: اسی دن کے لئے ہی تو میں نے اپنے بیٹے کو تیار کیا تھا۔ اللہ کے ہاں میں اجر کی طالب ہوں۔حضرت ابو بکر صدیق کی طرف سے مسلمہ کذاب کے خلاف جنگ کا اعلان کیا گیا اور پھر اس کافر کا اختتام ہوا۔