الفاظ کا جادو
یہ سن ٢٠٠٩کی بات ہے آخری بار دوران پریگنینسی کچھ کمپلیکیشنز کی وجہ سے ضیالدین ہاسپٹل میں میری ڈاکثر نے مجھے ایڈمٹ ہونے کے لیے کہا میرے شوہر چاہتے تھے کہ میں پرائیویٹ روم میں رہوں پر اس میں خرچہ اچھا خاصہ تھا اور پھر کسی کو ساتھ رکنا بھی پڑتا میں کسی کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی کیونکے سسرال والے پہلے ہی میرے تین بچوں کو سنبھال رہے تھےموسم اچھا تھا اس لیے میں نے انہیں منع کردیا اور جنرل وارڈ میں داخل ہو گئی.
وارڈ میں زیادہ رش نہیں تھا مجھ سے پہلے چار خواتین وہاں ایڈمٹ تھیں دو زچگی کی وجہ سے اور دو میری ہی طرح کسی کمپلیکیشن کی وجہ سے وہاں آئی تھیں میں بنیادی طور پر ذرہ کم گو ہوں اور بے دھڑک لوگوں میں گھل مل جانے سے پرہیز کرتی ہوں پر جب کسی سے بات چیت شروع ہوجائے تو اچھی طرح ڈیل کر لیتی ہوں. میری ایک جانب بیڈ خالی تھا اور دوسری جانب ایک جواں سال لڑکی تھی جس کا نام ماریہ تھا باقی تینوں میری طرح ذرہ عمر دار تھیں سب نے ہی انکھوں آنکھوں میں مجھ سے سلام دعا کی پر ماریہ جلد مجھ سے فری ہوگئی کچھ دیر باتیں کرنے کہ بعد وہ ٹیسٹ کروانے لیبارٹری چلی گئی تو میں نے بیڈ اونچا کیا اور سکون سے لیٹ کر بیگ سےمستنصر حسین تارڑ کی ہنزہ داستان نکالی اور پڑھنے لگی .اس کتاب کا انتخاب میں نے اس لیے کیا تھا کہ شاید یہ ہاسپٹل کے ٹینشن زدہ ماحول میں میرے لیے راحت افزاء ہوگی.
کچھ ہی دیر بعد میرے ساتھ والے خالی بیڈ پر ایک زچہ کو منتقل کیا گیا جس کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوئی تھی کیس نارمل تھا پر تکلیف کے اثار اسکے چہرے پر واضح تھے .لیکن صرف تکلیف ہی نہیں تھی کچھ اور بھی ایسا تھا اسکے چہرے پر جو بہت واضح تھا اسکی اآنکھوں میں نمی بھی تھی جسے وہ بار بار نہ محسوس طور پر صاف کر رہی تھی مجھے حیرت ہوئی اسکے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا اسے دیکھ کر میرا کتاب سے دل ہٹ گیا.میرا دھیان بار بار اسکی طرف بھٹک رہا تھا.آخر کار مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں اسکے قریب چلی گئی. اسکا حال چال پوچھا اور پھر اسکی پریشانی کی وجہ پوچھی وہ بولی کچھ نہیں پر نگاہ برابر میں لیٹی بچی کی طرف اٹھ گئی. میں کچھ سمجھی کچھ نہیں. “بیٹی ہونے کی وجہ سے پریشان ہو ” اسنے مجھے دیکھا “بیٹی تو پھر بیٹی ہوتی ہے نہ ” میں اس سے اس بات کا مطلب جاننا چاہتی تھی پر اسی وقت ڈاکٹر راونڈ پر اگئی تو مجھے اسکے پاس سے ہٹ کر اپنے بیڈ پےآنا پڑا ماریہ بھی آگئی تھی ڈاکٹر نے میرے بیڈ پر کتاب دیکھی تو مسکرا کر بولی ” واہ بھئ تم تو ادبی خاتون ہو ” ان کی بات سن کر میں نے صرف مسکرانے پر ہی اکتفا کیا.
ڈاکٹر کے جانے کے بعد میں اسکے پاس جانے لگی تھی کہ ایک آدمی اسکے پاس آگیا اور اسکے قریب پڑے بینچ پر بیٹھ گیا ایک عجیب سی سرد مہری اسکے چہرے سے عیاں تھی وہ اسکے لیے کھانا لے کر آیا تھا وہ عورت اس سے بات کررہی تھی پر وہ بیزار سا کسی بات کا جواب دیتا کسی کا نہیں. میں زیر نظر مطالعہ کرتے ان پر بھی نگاہ ڈال لیتی تھی کچھ دیر میں ہی وہ بنا بچی پر نگاہ ڈالے جیب سے کچھ پیسے نکال کر اسکے پاس رکھ کر چلا گیا.اسنے کھانا نکالا اور آنسووں کی آمیڑش کے ساتھ کھانے لگی مجھے لگا وہ کھانا نہیں زہر اپنے اندر اتار رہی ہے میں اسکی طرف بڑھی پر مجھ سے بھی پہلے ماریہ اس تک پہنچ گئی تھی اور اسکے آنسو صاف کر کے اسے اپنے ہاتھ سے کھلانے لگی اس کا نام یاسمین تھا دوران گفتگو اسنے بتایا کہ انیوالا شخص اسکا شوہر تھا جو کہ چوتھی بیٹی کی ولادت پر اس سے ناراض اور بیزار تھا چونکہ جدید ٹیکنالوجی نے انہیں پہلے ہی بتادیا تھا کہ انکے ہاں بیٹی کی ولادت متوقع ہے اس لیے سسرال میں سے کوئی ساتھ نہیں آیا تھا میکہ اسکا کوئٹہ میں تھا.
مجھے اسکے حالات جان کر دکھ ہوا پر ماریہ کو شدید غصہ آیا “بھلا بیٹی پیدا ہونے میں اسکا کیا قصور ہے اب آئے اسکا شوہر میں تو سنا دونگی اسے.کہ بھائی جو اللہ نے چاہا وہی تمھارے گھر پیدا ہوا ” بلاشبہ وہ صحیح کہہ رہی تھی پر اسکی بات سن کر یاسمین کا رنگ اڑ گیا ” خدا کے لیے ایسا کچھ مت کہنا وہ پہلے ہی غصے میں ہے ایسی باتیں سن کر مجھے چھوڑ دے گا پھر میری بچیوں کو کون پو چھے گا” میں نے اسے تسلی دی اور ماریہ کو منع کیا کہ ایسا کچھ نہ کہے .اسکے بعد میں اور ماریہ بچی سنبھالنے میں اسکی مدد کرتے رہے رات میں اسکا شوہر پھر آیا تو اسکی باقی تینوں بچیاں بھی اسکے ساتھ تھیں. جو بتدریج دس،آٹھ اور چار سال کی تھیں.
تینوں بچیاں بار بار محبت سے چھوٹی بہن کو گود میں لے کر پیار کر رہی تھیں پر انکا باپ اب بھی سخت بیزار بیٹھا تھا اسے دیکھ کر میں نے ماریہ کو دیکھا وہ بھی اس آدمی کو دیکھ کر برا منہ بنا رہی تھی یاسمین نے بچی اپنے شوہر کی طرف بڑھائی تو اسنے ایک بیزار نگاہ بچی پر ڈالی اسی لمحے ایک خیال نے میرے دل کو چھوا ” مبارک ہو بھائی ماشاء اللہ بہت پیاری بچی ہے اپ کی” .اسنے حیرت سے مجھے دیکھا پھر ایک دھیمی سی مسکراہٹ اسکے چہرے پر در آئی.” یہ بچی آپ کے لیے انشاءاللہ بلند بخت ثابت ہوگی .” اسنے حیرت سے مجھے دیکھا ” بہن آپ کو کیسے پتہ ” .” بھائی بچی کی چوڑی پیشانی اور اس پر ابھرنے والی لکیر یہ بتارہی ہے کہ یہ نصیبوں والی ہے اور مستقبل میں آپ کے لیے انتہائ نفع بخش ثابت ہوگی ” میری بات سن کر اس آدمی کی ہی نہیں یاسمین اور ماریہ کی آنکھوں میں بھی حیرت اتر آئی تھی. چند لمحوں بعد ہی وہ بچی جسے اسکی ماں بد نصیب کہہ رہی تھی وہ اپنے باپ کی گود میں تھی میرے حوصلہ افزاء الفاظ جادو کر گئے تھے اب وہ ادمی بچی کو گود میں لیے اپنی بیوی کو بھی پیار بھری مسکراہٹ سے نواز رہا تھا.
انہیں وہیں چھوڑ کر میں وارڈ سے ملحقہ ٹیرس میں نکل آئی تو ماریہ بھی میرے پاس آ گئی ” واہ ، آپ نے تو کمال کردیا ایسی بات بنائی کہ پل میں کایا ہی پلٹ گئی ” میں نے اسکے کاندھے پر ہاتھ رکھا ” میں نے بات نہیں بنائی وہی کہا جو سچ ہے ” وہ سن کر حیران ہوئی “تو کیا آپ مستقبل کے بارے میں بتا سکتی ہیں” اسکی بات سن کر میں مسکرادی ” ہاں میں بتا سکتی ہوں کہ میرے پیارے نبی نے اگر یہ فرمایا ہے” کہ جسکی دو بیٹیاں ہوں اور وہ انہیں اچھی طرح پروان چڑھائے تو وہ جنت میں میرے ساتھ ایسے ہوگا جیسے میری دو انگلیاں .” تو یقینا ایسے ہی ہوگا اور اس سے بڑھ کر کسی انسان کی بلند بختی کیا ہوگی.اب تم ہی بتاو میں نے صحیح کہانا ” اسنے محبت سے مجھے دیکھا اور پھر مجھ سے لپٹ گئی.وہ جان گئی تھی کہ کسی بھی غلط فعل کو تلخی سے نہیں بلکے نرمی اور حوصلہ افزائی کی باتوں سے بدلہ جاتا ہے.
از
کرن نعمان