ایک دور دراز دیہاتی علاقے کے چھوٹے بازار میں ایک عمر رسیدہ بوڑھا ہاشم چاچا سڑک کے کنارے بیٹھے چھوٹی سی کڑاہی میں کچھ تیل ڈال کر پکوڑے بنا رہا ہے۔قریب ہی چھوٹے سے اخبار کے ٹکڑے تلے رکھی ٹوکری میں چند ایک پکوڑے رکھے ہوٸے ہیں ۔سفید ریش ہاشم چاچا ماتھے پر پسینہ لٸے ہوٸے لاغر اور بوڑھے جسم کیساتھ اپنے چھوٹے سے خاندان جس میں بیوی اور دو بیٹے شامل ہیں ،
ان کے گزر بسر کیلٸے محنت سے روزے کا سارا دن دھوپ میں پکوڑے بناکر تھوڑے پیسے کماتا ہے جس سے اس کی بمشکل گزر بسر ہوتی ہے۔ مگر وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوٸے خوشی خوشی حیات کے مستعار لمحے بتا رہا ہے۔رمضان المبارک کے آٹھویں دن جب ہاشم چاچا دن بھر پکوڑے بناکر بیچنے کے بعد کچھ پیسے کماکر ان سے گھر میں افطاری کیلٸے درکار چیزیں خرید کر گھر جارہا تھا تو اسے راستے میں اپنا ہمسایہ قاسم خان نظر آیا۔(جو بچپن ہی سے ایک ہاتھ اور ایک آنکھ سے معذور تھا)۔جس کے چہرے سے پریشانی عیاں تھی۔ ہاشم چاچا نے سلام کرنے کے بعد پوچھا کہ” قاسم صاحب کیا بات ہے؟ کیوں اتنے پریشان ہو؟ اس کے پڑوسی قاسم نے سلام کا جواب دیکر پریشانی چھپانے کیلٸے بات ٹالنے کی کوشش کی۔ مگر ہاشم چاچا جو اس کی معذوری اور گھریلو حالات سے واقف تھے۔اس نے دوبارہ پوچھا کہ ” کیا پریشانی ہے؟ بتاٶ مجھے ایسی کونسی بات ہے جس نے آپ کو فکر میں مبتلا کردیا ہے؟
قاسم چھپانا چاہتے تھے کہ مگر ہاشم چاچا کے اصرار پر بول اٹھا کہ ”اس کے گھر میں آج کھانے کیلٸے کچھ بھی نہیں ہے۔ ہاشم چاچا! آپ کو تو پتہ ہیکہ معذوری کی وجہ سے میں کچھ کرنے سے قاصر ہوں گھر میں کمانے والا کوٸی اور نہیں ہے جبکہ میرا گزر بسر صاحبِ استطاعت لوگوں کے دٸیے ہوٸے زکوۃ پر ہے۔تو مجھ سے بھوک سے گھر والوں کی حالت دیکھی نہ گٸی اور میں اس پریشانی میں باہر نکل آیا ہوں“ یہ کہہ کر قاسم کے آنکھوں سے لاچارگی کے آنسو نکل آٸے۔ہاشم نے اس کی کہانی سن کر اپنے ہاتھ سے گھر والوں کیلٸے لینے والے افطاری کے اشیأ اس کو تھماٸے اس کے علاوہ ہاشم نے جیبوں کو ٹٹولا تو کچھ پیسے نکلے جن کو اس نے قاسم کے ہاتھ پہ رکھا جو لینا نہیں چاہ رہا تھا .
مگر ہاشم نے اس کو زبردستی تھمایا اور یہ سوچتے ہوٸے چل دٸیے کہ گھر میں تو کچھ کھانے پینے کو نہیں ہوگا اور آج فاقہ برداشت کرتے ہوٸے پانی سے روزہ افطار کرنا ہوگا۔گھر پہنچا تو بیوی اور دو چھوٹے بچوں کو منتظر پایا۔ ہاشم نے سلام کرکے بچوں اور بیوی پر ایک نگاہ ڈالی اور افسردگی سے بیوی کو سارا واقعہ سنایا اور کہا کہ ”اس بندے کی مدد کی وجہ سے آج ہمیں فاقہ کرنا ہوگا“۔ہاشم کی بیوی بھی اس کی طرح خدا ترس تھی۔اس نے اطمینان بھرے لہجے میں کہا کہ ”الحَمْدُ ِلله، اللہ نے آپ کی اچھاٸی کا دنیاوی بدلہ اسی لمحے عطا کی ہے۔آج ہمارے پڑوس میں ایک صاحب کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوٸی ہے جس کی پہلے کوٸی اولاد نہیں تھی تو اس نے اس خوشی میں ہمارے گھر کھانے پینے اور افطار کا سامان وافر مقدار میں بھیجا ہے۔لہذا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ رب کا شکر ادا کریں کہ اس نے آج کا بندوبست کردیا ہے۔ ہاشم نے اس موقع پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے قاسم کیساتھ کی گٸی اچھاٸی کا بدلہ جلد ہی دے دیا۔ وہ اور اس کے بال بچے فاقے سے بچ گٸے۔بچوں نے پوچھا کہ ” کیوں آپ نے پورے دن کی کماٸی قاسم کو سونپی ؟“ حالانکہ خود آپ کے گزر بسر کیلٸے ہر روز یہی پکوڑے ہی سبب ہوتے ہیں“ ہاشم نے بچوں کو پیار کرتے ہوٸے جواب دیا کہ ” رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اپنی ضرورتوں کو پسِ پشت ڈال کر دوسروں کی مدد کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجاتا ہے۔ہم اپنی ضرورتوں کیلٸے پورا سال تک ودو کرتے ہیں مگر رمضان میں تھوڑا بہت ضرورت مندوں کو تھمایا تو آپ نے دیکھا کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے جلد ہی دنیا میں اس کا بدلہ عطا کردیا اور آخرت میں بھی اس بدلہ ضرور ملے گا“ اس کے بعد ہاشم اور اس کے بال بچوں نے دسترخوان بچھاکر دعاٸیں مانگی اور مغرب کے آذان کی آواز سن کر خوشی خوشی روزہ افطار کیا۔اور اللہ تعالیٰ کا شکر بجالایا جس نے اس کو اس غربت میں بھی دوسروں کی مدد کرنے کی توفیق دی۔
پیارے بچو! رمضان میں ہمیشہ اپنی ضرورتوں کو زرا کم کرکے غریبوں کی مدد کرنی چاہیٸے تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہوکر ہمارے تمام کام سنوارے گا اور ہمیں دنیا میں بلند مقام عطا کرے گا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ماہِ رمضان میں غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرماٸے آمین