ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت کا آغاز سیونتھ کلاس کی لڑائی سے ہوا اور تقریبا 90 سال میں پورا ملک انگریزوں کے قبضے میں آگیا ان کی کامیابی کا خاص راز یہ تھا کہ وہ دیسی حکمرانوں کے پردے میں قدم آگے بڑھاتے رہے کبھی انہیں آپس میں لڑا دیتا ہے اور ایک کی طرف دار بن کر دوسرے کو ختم کرتے پھر اپنے ساتھی کو محبت بنا کر رکھ دیتے لیکن اسی زمانے سے جو انگریزوں کی حکومت کے خلاف کوششیں شروع کر دی تھیں.
میر قاسم حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے کارنامے سب پر آشکار ہے جب فرمانرواؤں کے دلوں میں جہاد آزادی کا جوش و ولولہ سردار تو عوام نے قدم آگے بڑھایا اس سلسلے میں سید احمد شہید اور ان کے رفیقوں نے جو قربانیاں دی ہیں وہ ہماری تاریخ کا نہایت قیمتی سرمایا ہے ہزاروں سے لڑتے ہوئے شہادت پائی بے شمار لوگوں نے عقیدے کاٹی جائیدادیں ضبط کرائیں سنسان جزیروں میں زندگی کے دن پورے کیے لیکن جب تک انگریز حکومت سے نکلنا گئے سید صاحب کی جماعت بڑی تھی یا چھوٹی ہندوستان کے اندر اور باہر آزادی کے لیے سرگرم عمل رہی اے ٹین ففٹی سیون کا جہاد بھی آزادی ہیں کے لیے تھا جس میں مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں نے بڑی سرگرمی سے حصہ لیا اگرچہ مسلمانوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہوئی تھی چنانچہ اس کے انجام پر انگریزوں کا موقع بھی سب سے بڑھ کر مسلمانوں پر ہی نازل ہوا اور انہیں جو جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا اس کا صحیح اندازہ کرنا مشکل ہے مسلمان ایک ہزار سال یہاں حکمران رہ چکے تھے کیا ان کے پاس بڑی بڑی جائیدادیں اور قیمتی سرمائے نہ تھے.
وہ کہاں گئے اس دولت کو کون کھا گیا اپنے مال کو کوئی بھی ریت کے ذروں کی طرح نہیں بکھیرتا لیکن مسلمانوں کے کانوں میں جب وطن کو آزاد کرانے میں پہنچی تو وہ ہر چیز سے بے پرواہ ہو کر دائیں فرض کے لئے میدان عمل میں نکل آئے یہاں تک کے اینٹی سیون کے بعد وہ بحیثیت قوم ہندوستان میں سب سے زیادہ مخلص رہ گئے ان کی قربانیوں ملک کی آزادی کے لئے تھی 1960 میں کانگریس کی بنیاد رکھی گئی جس نے آخری دور میں ملکی آزادی کے لئے بہت کام کیا لیکن جب مسلمان میدان عمل میں نہایت کانگریس کی حیثیت ایک بےروح جو سچ کے سوا کچھ نہ تھی وہ 35 سال تک محض قرارداد منظور کرتی رہیں 19 میں ترقی معاملات کی تحریک جاری ہوئی اور مسلمانوں کا جوش جہاد بروئے کار آیا تو کانگریس ملک کی سب سے بڑی اور طاقتور عوامی جماعت بن گئی اگرچہ مسلمان ملک کی کل آبادی کی صرف ایک چوتھائی تھے لیکن خلافت اور ترک موالات کی تحریک میں جو لوگ شہید ہوئے .
ان میں سے اسی فیصد مسلمان تھے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان میں آزادی کے لئے قربانیوں کا ولولہ کتنا زیادہ تھا ترک موالات کے بعد بھی تحریک آزادی کے راستے میں کئی نشیب و فراز قائم مدوجزر کی کی حالت تھی اس پر طاری ہوئی لیکن کمان سے نکلا ہوا تیر واپس نہ ہو سکتا تھا اور نہ ہوا انگریزی چھوڑتے گئے اور ملکی مطالب میں زیادہ سے زیادہ قوت پیدا ہوتی گئی حقیقت یہ ہے کہ ایسی حکومت فقط ایک ہوا ہوتی ہے یہ ہوا دلوں پر مسلط رہتا ہے تو کسی کو اٹھنے کا خیال بھی نہیں آتا وہ مزا ہو جاتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیند سے یکایک آنکھیں کھل گئیں جب آنکھیں کھل جائیں تو انہیں کسی تدبیر سے بھی دوبارہ بند نہیں کیا جاسکتا انگریزوں کو مستقبل کے متعلق ایک واضح فیصلہ کرنا پڑا وہ جانتے تھے کہ کروڑوں کی آبادی پر کوئی بھی پہرے نہیں بٹھا سکتا اٹھتے ہوئے طوفان آزادی کو روک دینا کسی کے بس کی بات نہ تھی انہوں نے آزادی کی تاریخ مقرر کر دی اور 15 اگست 1947 کو ہندوستان آزاد ہوگیا اس طرح 2000 ملک پاکستان اور بھارت وجود میں آئے نصرت و شادمانی کا نادر موقع تھا مگر افسوس کے آخری دور میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے معاملات کا تصفیہ نہ ہونے کے باعث کتنا خوشگوار حالات پیدا ہو گئے اور مسرت و شادمانی کی صبح کا دامن آگ اور خون کے دھبوں سے داغدار ہو گیا۔
thanks for info