لمبی سوچیں!!!!!!
ہر کامیابی کے پیچھے اہم رکن کی حیثیت سے موجود ہوا کرتی ہیں۔ وہ الگ بات کہ ہم ان کو خیالی پلاؤ کے طور پر لیتے ہیں۔ہماری یونیورسٹی میں ایک سیمینار ہوا اس میں چیف گیسٹ کے طور پر یونیورسٹی سے ہی فارغ التحصیل شخص کو بلایا گیا جو کہ ٹیکسٹائل ملز کا مالک تھا جن کی تعداد 4 عدد ہے۔ انہوں نے چند ایک باتیں کیں جن میں سے ایک اس بات اسے سے متعلق تھی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے سیر کرنے کا بہت شوق ہے میں اپنی فیملی کے ساتھ کافی ممالک پھر چکا ہوں اور ایک مرتبہ حسب معمول میں ایئرپورٹ پر بیٹھا اپنی فلائٹ کا انتظار کر رہا تھا۔
ایک طالب علم نما نوجوان میرے پہلو میں بیٹھا موبائل استعمال کر رہا تھا یا کسی اور عمل میں مصروف تھا۔ میرے پوچھنے پر اس بات کا تو انکشاف ہوا کہ وہ طالب علم ہی تھا تو اسی دوران ہم دونوں میں گفتگو کا آغاز ہو گیا۔ پھر میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کا پڑھائی مکمل کرنے کے بعد کیا کرنے کا ارادہ ہے اس کا جواب سن کر حیران ہو گیا۔ اس نے کہا کہ ابھی اس کی عمر17سال ہے اور میں 22 سال کی عمر میں یونیورسٹی سے فارغ ہوں گا اس کے بعد اپنی کمپنی سٹارٹ کروں گا ایک دو سال بعد میرے پاس اتنے ملازم ہو جائیں گے اور میری کمپنی کی پروڈکشن اتنی ہو گی پھر چند سال بعد میں ایک اور کمپنی سٹارٹ کروں گا۔ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ لوگ اپنی زندگی کو لے کر اپنے فیوچر کو لے کر اتنا سیریس ہیں اور ہم لوگ جن کا دماغ اور عقل ان کے اگلے قدم میں پڑے ہوئے ہیں۔
ایک مرتبہ میں اپنے اسکول دوست کے ساتھ کھڑا تھا اور ہم اپنے فیوچر پر ہی بات چیت کر رہے تھے اتنے میں ایک بچہ آیا جو کہ میڑک کا طالب علم تھا اور اگلے سال اس کو کسی کالج میں داخل ہونا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یار آگے کدھر جانے کا ارادہ ہے آگے سے مجھے جواب ملتا ہے “فل حال تے ایدھر نو جا ریا “۔ ہم لوگ سوچنے سے بالکل قاصر ہوتے جا رہے ہیں اور نہ ہی ہماری تربیت اس طرح کی کی جا رہی ہے کہ ہم کچھ سوچ سکیں میں سب کی بات نہیں کر رہا کچھ لوگ ہیں جو سوچتے ہیں مگر اکثریت کا حال بہت برا ہے۔
دعا ہے کی اللّٰہ تعالٰی ہمارا حامی و ناصر ہو۔
تحریر از : حافظ محمداللہ ✨
اسمیں قصور ہمارے تعلیمی ننظام کا ہے جہاں سوچنے کے بجائے طوطے کی طرح رٹنا سکھایا جاتا ہے جن تک یہ نظام نہیں بدلے گا ہمارے بچوں کو سوچنا نہیں آئے گا
محترمہ آپ کی بات ایک حد تک درست ہے